Pages

Monday, 7 January 2019

👈 کاش تمام بچوں کو حافظ، عالم بناتا.

شوکت صاحب کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو بیوی نے شوہر سے کہا کہ بچے کو دینی علوم پڑھاتے ہیں میرا شوق ہے بچہ حافظ عالم بنے۔
شوہر نے بیوی سے کہا کہ حافظ عالم بنا کر اسے بھوکا مارنا ہے
میں اسے بڑا افسر بناؤں گا تا کہ دنیا کا کامیاب انسان بن جائے
شوکت صاحب واپڈا میں اعلی عہدے پر فائز تھے
تعلیم یافتہ اور دنیاوی طور پر کامیاب ترین انسان تھے
بیوی دیندار تھی اور شوق تھا کہ بچے حافظ عالم بنیں
لیکن شوکت صاحب نہ مانے
دوسرا بیٹا پیدا ہوا بیوی نے پھر کہا کہ اس کو تو میرے شوق پر حافظ بنا لو لیکن اس بار بھی بیوی کی نہ مانی گئی
تیسرا بیٹا پیدا ہوا پھر بیوی نے اپنے شوق کا اظہار کیا لیکن مراد پوری نہ ہوئی
چوتھا بیٹا ہوا تو بیوی نے شوہر کی بہت منت سماجت کی کہ تین بچے آپ کی مرضی کی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس بیٹے کو میری مرضی پر حافظ بننے دو
شوکت صاحب نے بیوی کی بلآخر مان کر آخری چھوٹے بیٹے کو مدرسہ میں داخل کروا دیا
خیر وقت کا پیہ گھومتا رہا بڑے تینوں بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہوگئے
چھوٹا بیٹا حافظ قاری عالم بن گیا
ایک دن شوکت صاحب نے فخریہ انداز میں بیوی سے کہا بڑے تینوں بچے اعلی سرکاری عہدوں پر لگ گئے اچھا کما رہے ہیں
چھوٹا مولوی بن گیا وہ جہاں بھی جائے گا اس کے پورے مہینے کی تنخواہ بڑے بچوں کی ہفتے کی تنخواہ برابر ہوگی
تم نے اپنی مرضی کروا کر بڑی غلطی کی ہے
اس کا مستقبل تاریک کر دیا
بیوی نے شوہر سے کہا کل چاروں بچوں کا امتحان لیتے ہیں دیکھتے ہیں کون سا بچہ کامیاب اور کون سا ناکام ہے
دوسرے دن شام کو بچوں کے گھر آنے سے کچھ وقت پہلے ماں نے اپنا چہرہ ناخن مار کر زخمی کیا سر کے بال بکھیر کے دپٹہ پھاڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی
باپ اندر کمرے میں چھپ کر بیٹھ گیا
پہلا بڑا بیٹا گھر آیا ماں کو اجڑی ہوئی حالت میں دیکھ کر پوچھا تو ماں نے اس کے باپ کو تین چار گالیاں نکال کر کہا کہ اس نے مارا ہے پھر بدعائیں کرنے لگی
بیٹے نے باپ کو برا بھلا کہا اور تھکاؤٹ کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
دوسرا بیٹا آیا اس نے بھی ماں کو بری حالت میں دیکھ کر وجہ پوچھی
ماں نے روتے ہوئے شوہر کو گالیاں نکال کر بدعائیں کی اور بیٹے کو بتایا کہ تمہارے باپ نے مارا ہے اور پھر بدعائیں کرنے لگی اس نے بھی باپ کو برا بھلا کہا اور اپنے کمرے کو چلا گیا
اسی طرح تیسرے بیٹے کو بھی ماں نے گھڑی ہوئی جھوٹ کی کہانی سنائی تو تیسرا بیٹا جو کہ طبیعت کا تیکھا تھا باپ کو چار گالیاں نکالی بُرا بھلا کہا اور کہا کہ گھر آنے دو بڈھے کو پتہ لگاتا ہوں
باپ سب کچھ سنتا رہا دیکھتا رہا اور خون کے آنسو روتا رہا
اسی اثناء میں چھوٹا بیٹا گھرآیا بیٹے نے ماں کو اس حالت میں  دیکھا تو ایک دکھ کا جھٹکا لگا اور بھاگ کر ماں کے پاس آ کر قدموں میں بیٹھ گیا
ماں نے وہی جھوٹی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تو بیٹے نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سمجھایا کہ امی جان ابو آپ کا سب کچھ ہے
باپ سے بھی زیادہ حقوق شوہر کے ہیں
اگر میرے ابو نے آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
امی جان آپ نے ابو کو کچھ کہا ہوگا تو ہی یہ نوبت پیش آئی ہوگی
غلطی تو آپ کی بھی ہوگی امی جان
ابو نے اگر آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
کچھ بھی نہیں ہوا امی جان دکھ مت کرو
ابو تمہارا سرتاج ہے سب کچھ ہے
حوصلہ کرو امی جان
جس نے اتنا عرصہ پیار محبت سے خوشیاں دیں آج اگر تھوڑی سختی سے پیش آگیا تو کیا غم ہے امی جان
صبر کرو اور معاف کر دو
یہ سمجھو کہ کچھ نہیں ہوا امی جان
میٹھا کھاتے کھاتے اگر تھوڑا کڑوا بھی آگیا تو کیا پروا ماں
باپ سب کچھ سن رہا تھا سب کچھ دیکھ رہا تھا برداشت نہ ہوا بھاگ کر باہر آیا اور اپنے اسی بیٹے کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ اب بتاؤ
شوکت صاحب کو عمر کے اس حصے میں آکر احساس ہوا کہ بیوی کا فیصلہ ٹھیک تھا
جن بچوں کو اچھے مستقبل کے خوابوں کے لئے اچھے سکولوں میں اعلی تعلیم دلائی
دنیا کی ہر آسائش دی ہر خواہش پوری کی
لیکن یہ بھول گئے کہ ماں باپ کے آداب انگلش کی کتابوں میں نہیں سکھائے جاتے
ماں باپ کے حقوق سے آشناء تو قرآن و حدیث کرواتا ہے
ماں باپ سے کیسے پیش آنا ہے ان کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا ہے یہ قرآن و حدیث بتاتا ہے
ماں باپ کے آداب صرف قرآن و حدیث سکھاتا ہے
آج شوکت صاحب کو احساس ہوا کہ جن بچوں پر لاکھوں لگا کر ڈگریاں دلائیں وہ سب جعلی نکل گئیں
اصل سرمایہ تو وہ بچہ ہے جس نے صفوں پر بیٹھ کر قال اللہ قال رسول پڑھا
دل سے ایک آہ نکلی اور سوچا کاش میں سب بچوں کو حافظ قاری عالم بنالیتا.

No comments:

Post a Comment