ایک ریاست تھی…
وہاں شراب کی ممانعت ہوئی اور اس طرح عمل ہوا کہ اس کے برتن اور مٹکے تک استعمال کرنے کی اجازت نہ رہی ۔شراب کے ذخیرے گلیوں میں بہا دئیے گئے اور برتن توڑ دئیے گئے۔ نہ کوئی مے خوار رہا اور نہ ساقی …
دِلوں کا شوق سخت وعیدوں کے ذریعے تو نکالا ہی گیا تھا، ساتھ سر پر کوڑا بھی لٹکا دیا گیا تاکہ جذبات قابو میں رہیں۔
ایک ریاست ہے…
آئینی طور پر شراب ممنوع ہے۔ نہ خریدو فروخت کی اجازت ہے، نہ پینے پلانے کی۔ منہ کالا کرنے کے شوقین اَقلیتوں کے بہانے سے حاصل کرتے ہیں۔ ان اقلیتوں کے نمائندے ایوان سے میڈیا تک ہر جگہ دُہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے نام پر لعنت کا یہ دھبہ نہ لگایا جائے۔شراب ان کے مذہب میں بھی حرام ہے، وہ نہیں چاہتے کہ ان کے نام سے اسے فروغ دیا جائے۔ مگر ریاست کہتی ہے یہ بات کرنے والے سستی شہرت کے طالب ہیں، ریاست کا فرمان ہے کہ شراب پر پابندی کے بعد پابندیوں کا دَروازہ کھل جائے گا اور مزید شرعی قدغنوںکے مطالبے ہوں گے۔ اس لئے یہ ریاست شراب کو تحفظ دے گی تاکہ عوام کو مزید ’’شریعت‘‘ سے بچا سکے۔
اس ریاست کے حکمران کا کہنا البتہ یہ ہے کہ وہ اِس ریاست کو اُس ریاست جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ کئی اَصحابِ تقدیس کا اِصرار ہے کہ حکمران کی تصدیق کی جائے اور کئی اَصحابِ فتویٰ کا فرمان ہے کہ شک کرنا ، تنقید کرنا بس کفر سے تھوڑا سا ہی کم جرم ہے۔ آپ بتائیے کدھر کو جائیں؟…
ایک ریاست تھی…
ایک دن نماز کے بعد اِعلان ہوا فلاں بن فلاں گستاخ ہے۔ کون ہے جو اسے انجام کو پہنچا کر راحت رسانی کرے؟ ایک جماعت گئی اور حکم کی تعمیل کر آئی ۔
چند دِن بعد پھر اعلان ہوا۔ فلاں بن فلاں گستاخ ہے۔ کون ٹھکانے لگا کر جنت لینے کا پروانہ لینے کا مشتاق ہے؟
کچھ خوش نصیب گئے۔ کام تمام کیا اور غبار آلود چہروں کے ساتھ واپس لوٹے۔ اِرشاد ہوا ’’اَفْلَحَتِ الْوُجُوْہُ ‘‘…
ایک عورت اِس جرم میں ماخوذ ہوئی۔ اُسے بھی معافی نہ ملی ۔ مردوں کی طرح اَنجام کو پہنچائی گئی اور جہنم رسید کرنے والے نے قرب و محبت کی سند پائی۔
اِس ریاست سے ایک دن تو گستاخی کے مجرم کے لئے ایسا امر صادر ہوا کہ قیامت تک کے لئے قانون کا رُتبہ پا گیا اور اس مسئلے کی حساسیت کو بھی واضح کر گیا۔ ایک گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں سے لپٹا ہوا زندگی اور معافی کی بھیک مانگ رہا لیکن اسے اتنی رعایت بھی نہ ملی کہ بیت اللہ سے گھسیٹ کر دور لے جایا جاتا اور اَنجام کو پہنچایا جاتا۔ اُسے اُسی مقام پر قرارِ واقعی سزا دے دی گئی۔
ایک ریاست ہے…
یہاں سزا یافتہ گستاخ کو ایک طے شدہ ڈرامے کے مطابق جرم سے براء ت کی سند دے دی گئی۔ آئین اور معاہدے کے مطابق اس فیصلے پر نظر ثانی کے معاملے کو بھی وعدۂ فردا پر ٹال دیا گیا۔ جن سے معاہدہ کیا گیا اُن پر بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمے بنا دئیے گئے۔ باقی سب خیریت ہے۔ لیکن…
سب اس بات پر ایمان لائیے کہ یہ ریاست عنقریب ’’وہ‘‘ ریاست بننے والی ہے۔ یہی حکم ہے اور یہی فرمان۔ نہ ماننے والا نتائج کا خود ذِمہ دار ہو گا…
ایک ریاست تھی…
سود وہاں حرام تھا۔ سود کا ہر معاملہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اسے اللہ و رسول سے جنگ کا نام دے دیا گیا تھا۔ اس کا ایک سکہ بھی جہنم کی آگ قرار دے دیا گیا تھا۔ اسے معیشت کی تباہی اور بربادی کا سبب بتا کر لوگوں کو اس سے بالکل دور کر دیا گیا تھا اور اس کی ہر نوع پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ایک ریاست ہے…
جہاں معیشت کا بنیادی پتھر ہی سود ہے۔ برباد شدہ معیشت کو اُستوار کرنے کے لئے جوحل تجویز کئے جا رہے ہیں وہ بھی سارے سود پر مبنی ہیں۔ ریاست کے آئین میں سود ممنوع ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق بھی ناجائز ہے۔ لیکن حکمران اس بارے میں فیصلہ کرنا تو دور کی بات، سوچنے پر بھی آمادہ نہیں۔
ایک ریاست تھی…
وہاں حیاء کو اِیمان کا عالی مرتبہ شعبہ قرار دے کر معاشرے کی بنیادی ترجیحات میں شامل کر دیا گیا تھا۔
ایک ریاست ہے…
جہاں بے حیائی کا فروغ سرکاری ترجیحات میں شامل ہے اور اس پر عمل حکومت حاصل کرنے سے بھی کافی پہلے شروع کیا جا چکا ہے۔
اور ہاں …ایک تصویر دیکھے بغیر تو ریاست اور ریاست کا یہ موازنہ ادھورا رہ جائے گا۔
ایک ریاست تھی…
جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاں سے ایک بہت بڑا لشکر نکلا تھا تاکہ انہیں تہہ تیغ کرے اور زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرے۔ زمانے کے سب سے پاکباز اور عظیم المرتبت لوگوں کا لشکر۔ گویا ریاست کا واضح اِعلان تھا کہ جھوٹی نبوت اور اسے ماننے والوں کے ساتھ اس ریاست کا صرف ایک ہی رشتہ اور تعلق ہے اور وہ ہے دشمنی کا۔ ان کے تئیں ریاست کی صرف ایک ہی پالیسی ہے اور وہ ہے خاتمے کی۔ اس ریاست کا واضح فیصلہ ہے کہ ایسے لوگ جو اسلام میں کسی دوسری نبوت کے قائل ہوں اس ریاست سے ذمی اور اقلیت کے حقوق نہیں لے سکتے۔ ذمی وہ کافر ہوتا ہے جو خود کو اسلام سے الگ مانتا ہے اور اپنی ایک الگ شناخت کا طالب ہوتا ہے خود کو مسلمان نہیں کہتا۔ یہ اس ریاست کی دائمی اور اٹل پالیسی تھی اس ریاست نے اس پالیسی پر بڑی عظیم قربانیاں پیش کیں اور اپنے منتخب ترین لوگ وارے۔
ایک ریاست ہے…
ہر روز منکرینِ ختم نبوت کے ساتھ اس کا ایک نیا تعلق سامنے آ جاتا ہے۔ کبھی مشیروں کی بھرتیوں کے نام پر، کبھی خفیہ ملاقاتوں کی شکل میں۔ کبھی یقین دہانیوں اور وعدوں کی صورت اور کبھی ان کے مخالفین پر سخت شکنجوں کی پالیسی اپنا کر۔ سربراہِ ریاست کی زبان اس عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتی ہے اور قدم پالیسیاں بناتے ہوئے
لیکن…
ہم سب کہیں اور لازم ہے کہ کہیں… حکمران اِس ریاست کو اُس ریاست جیسا بنانے کے اِعلان میں سچے ہیں، مخلص ہیں اور سبقت لے جانے والے ہیں۔
یہی اعتدال ہے اور یہی عینِ انصاف۔ اس کے سوا جو سوچ اور نظریہ ہے وہ انتہا پسندی ہے اور ناقابل قبول ہے۔
کہیے کہیے جلدی کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں زور سے کہلوایا جائے۔
جان کی امان پاؤں تو ایک مثال پر بات ختم کر دوں۔
ہماری سرائیکی زبان میں مثل ہے۔ ترجمہ اس کا کچھ یوں ہے کہ
’’ہندو عورت کامحض نام ’’غلام فاطمہ‘‘ رکھ دینے سے ’’تبدیلی‘‘ نہیں آئے گی اس کا مذہب بھی بدلنا پڑے گا ‘‘
٭…٭…٭
No comments:
Post a Comment