چائے کے بعد اس نے سوچا کافی ٹائم ہو گیا ہے اب چلنا چاہیے، وہ اٹھ کھڑا ہوا حالانکہ اسکا دل نہیں چاہ رہا تھا وہ حنا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا پر سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سالار سے کیسے کہے.
سالار نے اسکی خواہش اسکی آنکھوں سے پڑھ لی.
بہو سے کہا کہ جلدی سے تیار ہو جاؤ، اتنے عرصے بعد باپ بیٹی ملے ہو آپ دونوں کو کچھ وقت ایک دوسرے کے ساتھ بیتانا چاہیے، جو گلے شکوے اتنے سالوں سے دل میں پل رہے ہیں انہیں باہر نکالو اور دل صاف کر لو....
حنا خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی..... اس نے ممنون نگاہوں سے سالار کی طرف دیکھا آج اسے اس دوستی پر بہت رشک آیا.
وہ بیٹی کو لے کر قریبی پارک میں چلا آیا.... دونوں کے درمیان مکمل خاموشی تھی.
اس نے جیب سے والٹ نکالا اور حنا کے سامنے کر دیا، یہ اسکے بچپن کی تصویر تھی وہ کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس رہی تھی، وہ تصویر دیکھ کر مسکرا دی.......
میری بیٹی میری جان یوں خاموش نہ رہو، گلے کرو مجھ سے لعن طعن کرو مجھے،میں ایک ناکام باپ ہوں جو اپنی بیٹی کے حقوق ادا نہیں کر سکا..... پلیز مجھے معاف کر دو..... اس نے بیٹی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے.
نہیں بابا نہیں.... حنا نے باپ کے ہاتھ کھول دئیے... باپ کا جھکا سر اور معافی مانگتے ہاتھ اسے تکلیف دے رہے تھے.
ایک بیٹی کو چاہے لاکھ شکوے ہوں پر وہ باپ کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں کر سکتی، باپ تو بیٹیوں کے ہیرو ہوا کرتے ہیں.
اس نے بیٹی کے سر پر بوسہ دیا آج اتنے سالوں بعد حنا کے منہ سے نکلا لفظ بابا اسکے بنجر وجود کو سیراب کر گیا....
میں آپ سے اور دادا دادی سے بہت پیار کرتی تھی، ماما سے بھی زیادہ..... یہ بات ماما کو نا گوار گزرتی تھی سارا ہفتہ میں گھر میں آپ لوگوں کی باتیں کرتی رہتی تھی، ماما مجھے سختی سے ٹوک دیتی.
جب آپ نے شادی کی ماما نے مجھے آپ سے بدظن کرنے کی کوشش کی پر عینی آنٹی کی محبت نے مجھے آپ لوگوں سے مزید جوڑ دیا.
پر بھائی کی پیدائش پر ماما اپنی کوشش میں کامیاب ہو گئی، ماما نے کہا کہ بابا کو بیٹا مل گیا ہے اب انہیں تمہاری ضرورت نہیں... اگلی بار آپ سے ملنے آئی، آپ کو بھائی سے پیار کرتے دیکھا، سارا دن آپ نے اسکے ساتھ بیتایا مجھے پارک بھی نہ لے کر گئے میری کوئی بات نہیں سنی تو مجھے لگا ماما صحیح کہہ رہی ہیں.
پھر میں آپ سے بد دل ہوتی چلی گئی، ماما میری برین واشنگ کرتی رہیں پھر ایک دن آیا کہ میرا آپ سے ملنے کو بھی دل نہیں کرتا تھا ماما کو بھی ڈر تھا کہ کہیں آپ مجھے واپس نہ لے لیں, سو انہوں نے گھر ہی بدل لیا.
حنا کچھ لمحوں کو خاموش ہو گئی اس نے اپنے آنسو صاف کئے جو مسلسل اسکے گالوں پہ بہہ رہے تھے، کچھ لمبی لمبی سانسیں لیں. وہ یہ سب پوچھے بنا ہی بتا رہی تھی.... وہ اپنی بیٹی سے کسی قسم کی بازپرس نہیں کرنا چاہتا تھا، پر اسے یہ سب کہنے سے روکنا بھی نہیں چاہتا تھا، وہ چاہ رہا تھا کہ آج ہی وہ دونوں سب گلے شکوے کر ڈالیں اور پھر کبھی ماضی کو نہ دھرایا جائے کل سے اک زندگی کا آغاز کیا جائے اک خوبصورت زندگی.....
حنا پھر سے گویا ہوئی.....
میں نے ساری زندگی آپ کی کمی بہت محسوس کی مجھے آپ سے محبت نہیں رہی تھی پر آپکی ضرورت قدم قدم پر تھی، چند سالوں بعد ہی نانا کی ڈیتھ ہو گئی. ماما نے ٹیچنگ کر کے گھر چلایا صد شکر کہ نانا بھی کچھ رقم چھوڑ گئے، ورنہ تو شاید فاقے بھی کرنا پڑتے.
مالک مکان نیک انسان تھا سو زندگی عزت سے گزار پائے ورنہ اس معاشرے میں تنہا عورت کو کون عزت سے جینے دیتا ہے. دن رات کی محنت نے ماما کو بیمار کر دیا.... انہیں کینسر ہو گیا....
ماما بہت بیمار رہنے لگی تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے آپ کو چھوڑ کر بہت بڑی علطی کی اگر وہ ہمت نہ ہارتی تو نانا کو اپنے ساتھ رہنے پر ضرور منا لیتیں یا اپنی انا کو پس پشت ڈال کر آپ سے بات کرتیں تو اس مسئلے کا ضرور کوئی اچھا حل نکل آتا..... ان کی دوسری غلطی، پہلی سے بھی بڑی تھی انہوں نے مجھے آپ سے دور کر دیا..... میرے دل میں آپ کے لیے زہر بھر دیا..... پچھتاوے کا بھوت اب ہر دم ان کے سر پر سوار رہنے لگا..... وہ رو رو کر مجھ سے معافی مانگتی، وہ مجھے آپ کے سپرد کرنا چاہتی تھیں پر آپ کو کہاں ڈھونڈتی..... سو ایک دن مجھے مالک مکان کے حوالے کر کے یہ دنیا چھوڑ گئی.....
حنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس نے اسکا سر اپنے سینے پر ٹکا دیا، اسکے بھی آنسو بہنے لگے، نیلم کی موت کا سن کر اسے واقعی بہت دکھ ہوا.... وہ سمجھتا تھا نیلم کی محبت مر چکی ہے پر آج احساس ہوا کہ محبت مر نہیں سکتی، نیلم کی محبت بھی اسکے دل کے کسی کونے میں چھپی سو رہی تھی جو آج پھر جاگ اٹھی تھی. اسے سینے میں درد محسوس ہونے لگا.....
پارک کی دوسری طرف اسے چھلیاں بیچنے والا نظر آیا، حنا کو کوئلوں میں دبی چھلی بہت پسند ہوا کرتی تھی.
اس نے اسکے آنسو صاف کیے اور کہا میری جان کو چھلی بہت پسند ہے نا.... یاد ہے بچپن میں جہاں چھلی والا نظر آ جاتا تم ضرور لیا کرتی تھی.... وہ دیکھو چھلی والا.... میں ابھی لے کر آیا... تم کہیں جانا نہیں....
حنا اسکی بات پر مسکرا دی
وہ چلا گیا....
حنا باپ کی پشت کو مسلسل دیکھے جا رہی تھی اورساتھ میں سوچ رہی تھی بابا کو سب یاد ہے..... پر بابا یہ بھول گئے کہ اتنے سالوں میں پسند، نا پسند بھی بدل جایا کرتی ہیں.
اس نے دو چھلیاں لیں، حالانکہ اسکے دانت اب اس قابل نہ تھے کہ وہ چھلی کھا سکے پر آج بھی وہ اپنی بیٹی کا ساتھ دینا چاہتا تھا.... بچپن میں بھی وہ دونوں مل کر کھایا کرتے تھے.....
وہ بہت خوش تھا.... اتنا خوش کہ سڑک عبور کرتے ہوئے تیزی سے آتی ہوئی گاڈی بھی نہ دیکھ پایا اور حادثے کا شکار ہو گیا........ وہ شدید زخمی ہو چکا تھا گاڈی والے نے رکنا مناسب نہ سمجھا اور موقع سے فرار ہو گیا....
حنا نے جو حادثہ دیکھا تو چیختی ہوئی بھاگی آئی, باپ کا سر گود میں رکھے وہ رو رہی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کرے....
بیٹی کی آنکھوں میں آنسو وہ کبھی برداشت نہیں کر پایا تھا پر آج وہ ان آنسوؤں پر تڑپا نہیں تھا وہ مسکرا رہا تھا، اتنا شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ مسکرا رہا تھا..... وہ اپنے رب کی مہربانیوں پر مسکرا رہا تھا، اپنی آخری خواہش کے پورا ہونے پر مسکرا رہا تھا...... وقت نزاع ہو، حنا اسکے سامنے ہو اور جب دم نکلے تو سر اسکی بانہوں میں ہو آخری سانسیں وہ اسکی گود میں لینا چاہتا تھا اور دیکھو اسکی خواہش پوری ہو گئی....... بیٹی کتنی محبت سے اسکا سر گود میں لئے بیٹھی تھی.... اور پھر اسکا سر اک طرف کو ڈھلک گیا.
ختم شد...
No comments:
Post a Comment