Pages

Tuesday, 1 January 2019

"اِستقامت کرامت سے بڑھ کر ہے''


حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللّہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص دُور سے آپ رحمتہ اللّہ علیہ کی خدمت میں بیعت کرنے کے لیے آیا۔ایک دو ماہ آپ رحمتہ اللّہ علیہ کے پاس رہنے کے بعد بیعت کیے بغیر واپس جانے کے لیے تیار ہُوا تو آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے دریافت کِیا کہ:
'' کس غرض سے آئے تھے،واپس کیوں جا رہے ہو؟ ''
اس نے عرض کی:
'' حضرت بیعت کی غرض سے آیا تھا اب واپس جا رہا ہوں کیونکہ میں نے اتنی مُدّت آپ رحمتہ اللّہ علیہ کے پاس رہنے کے باوجود آپ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ ''
حضرت بایزید رحمتہ اللّہ علیہ نے دریافت فرمایا:
'' کیا تم نے اتنی مُدّت میں میری زندگی کا ایک لمحہ بھی(شریعت) خدا اور رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں گُزرتے دیکھا؟ ''
اس نے جواباً عرض کِیا:
'' نہیں۔ ''
آپ رحمتہ اللّہ علیہ نے فرمایا:
'' ہمارے پاس اِس سے بڑھ کر کوئی کرامت نہیں۔ ''
یہی سبب ہے کہ صوفیائے کرام کے ہاں یہ قول مشہور ہے کہ:
'' اِستقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔ ''
( حقیقتِ تصوّف،صفحہ 268 )
جو بات عوام میں کرامت کے طور پر مشہور ہے صوفیاے کرام اسے اپنے پاؤں کی گَرد بھی نہیں سمجھتے۔ہواؤں میں اُڑنا،آگ میں جانا،پانی پہ چلنا عوام کے ہاں کرامت ہے،دلیلِ بزرگی ہے۔لیکن اہلِ دِل کے ہاں یہ کرامت نہیں،اہلِ دِل کی پوری زندگی اگر اطاعت و اِستقامت میں بسر ہو جائے تو ان کے نزدیک یہی سب سے بڑی کرامت ہے۔
(منتخباتِ مشاہد سے) شریعت پے عمل نہیں کرتے اور روحانیت کا درس دینا شروع کر دیتے ہیں( قیامت) اس دن اپنے رب کے سامنے شرمسار ہونگے وہ لوگ جو تصوف کے نام پر اپنے ایمان بیچتے ہیں

No comments:

Post a Comment