Pages

Monday, 31 December 2018

کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھو




پرانے زمانے کى بات ہے ایک سُنار جو کے بمبئی کا رہنے والا تھا لاہور آیا اس کے پاس کافى موتى تھے اس نے وه موتى ایک مجلس میں کھولے اور سب کو دکھانے لگا، اس نے ایک موتى جیب میں سے نکالا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے بولا کے یہ موتى شب افروز ہے *(یعنی رات کو چمکتا ہے)
جب اس نے سامان سمیٹا اور اُٹھ کر جانے لگا تو ایک چور جو اسى مجلس میں بیٹھا تھا پوچھنے لگا جناب کہاں کے ارادے ہیں۔

سُنار نے جواب دیا بمبئی جا رہا ہوں۔
چور نے کہا:
اتفاق دیکھیں؛ میرا بھی وہیں کا پروگرام ہے چلیں مل کے چلتے ہیں. یہ سُنار بھى سمجھ گیا کے یہ میرا ہمسفر نہیں ہے بلکہ اس موتى کے پیچھے ہے،

لیکن سمجھدار تھا کہنے لگا آؤ چلتے ہیں. دونوں مل کر چل پڑے سارا دن سفر کیا اور شام کو جب سونے لگے تو چور نے اپنى واسکٹ وغیرہ جو قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی اُتار کر علیحدہ ایک جگہ پے لٹکا دی، سُنار نے وه موتى اپنى جیب سے نکالا اور نظر بچا کے وه قیمتی موتى اس کى جیب میں رکھ دیا اور خود بے فکر ہو کر سو گیا؛ اب یہ چور رات کو اُٹھا اور اس کى جیب اس کا سامان سب دیکھنے لگا لیکن کہیں بھى موتى نہ ملا اخر وه سو گیا

صبح اُٹھتے ہی سُنار نے نظر بچا کر وه قیمتی موتى اس کى جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا، جب چور اُٹھا تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے سُنار سے باتوں باتوں میں پوچھا کے وه تمہارے پاس وه جو قیمتی موتى تھا وه کہاں ہے رات کو چمک بھى نہیں رہا تھا، سُنار نے موتى جیب سے نکال کر دکھایا اور کہا کے یہ تو میرے پاس ہے۔

چور حیران ہو گیا کے میں نے اس کى پورى جیب چھان ماری لیکن مجھے یہ نہ ملا لیکن اس نے ابھى جیب سے نکال کر دیکھا دیا خیر آج رات نکال لوں گا، سُنار نے اگلى رات پھر وہی عمل کیا ادھر چور بھى سارى رات ڈھونڈتا رہا لیکن کچھ نہ ملا ، صبح کو پھر وہی ماجرا کے موتى سُنار کى جیب سے نکل آتی، یہی کام تین سے چار دن چلتا رہا آخر چور نے ایک صبح سُنار سے کہا کے میں آپ کا ہم راہی نہیں تھا میں بس آپ کے ساتھ اس موتى کى خاطر تھا آج میں آپ کو اُستاد مانتا ہوں آپ مجھے بتائیں کے آپ یہ موتى رکھتے کہاں تھے رات کو. اس نے کہا میاں تو اوروں کى جیبیں ٹٹولتا رہا کبھى اپنى جیب میں بھی ہاتھ ڈالا ہوتا.
آج ہمارى مثال اس چور کى سى ہے جو لوگوں کے عیب ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تک نہیں

نوٹ 👇
ہماری یہ عادت بن چکی ہے ؛
کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی غلطیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو نہیں ٹٹولتے

No comments:

Post a Comment