🌺🌹🌺🌹🌺🌹
*سر سے دستار گری ہاتھ سے ہتھیارگرے*
*مصلحت اوڑھ کے جب قوم کے سردارگرے*
کشتیِ قوم بھلا پار کہاں سے لگتی
موجِ طوفان سے گھبرا کے جو پتوار گرے
اور ہوں گے جو ترے در پہ گرا کرتے ہیں
غیر ممکن ہے کہ مجھ سا کوئی خود دار گرے
وہ کہ ہر روز عداوت کی بنا رکھتے ہیں
اپنی کوشش ہے کہ نفرت کی یہ دیوار گرے
ہم تو سمجھے تھے اٹھانے وہ ہمیں آئیں گے
بس یہی سوچ کے رستے میں کئی بار گرے
جان تھی جب تو کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا
اب میری لاش پہ بیکار عزادار گرے
*جھک کے چلنا تو شریعت کا تقاضا ہے مگر*
*اتنا بھی ٹھیک نہیں جس سے کہ معیار گرے*
یار کرسی بھی عجب شئی ہے کہ اس کی خاطر
قائد ِ قوم گرے ملک کے معمار گرے
سیف دنیائے سخن کے کئی استاد سخن
بحر و اوزان میں لنگڑاتے کئی بار گرے
*کلام✍🏻سیف بابر*
🌹🌺🌹🌺🌹🌺
No comments:
Post a Comment