Pages

Tuesday, 18 December 2018

*پُھوٹے گی صبحِ امن ' لہو رنگ ہی سہی!*

۔

تحریر: شاداب ظفر

مجھے حد درجہ دکھ اور درد ہوتا ہے جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ افق عالم پر ایک عظیم جمہوریت کے نام سے متعارف ہمارا یہ ملک ہندوستان کس درجہ ظلم و انتہا سے جھوجھ رہا ہے، اس ظلم کو کھلے الفاظ میں اگر یوں کہاجائے کہ یہ صرف اور صرف ایک خاص قومیت اور مذہب رکھنے والے لوگوں کے خلاف ہورہاہے، تو چنداں غلط نہیں ہوگا۔

     کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک سب جگہ اسی مخصوص طبقہ کو مشق ستم بنایا جارہا ہے، بڑے بوڑھوں بچوں جوانوں سب کو یکساں طور پر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اِسی مخصوص و مظلوم طبقے میں سب سے اہم مسئلہ کشمیری مسلمانوں کا ہے۔

وہی کشمیر جو جنت نشان تھا آج جہنم کے شعلوں سے تپ رہا ہے، جو آج تک ہندوستان کی جان بن کر چلا آرہا ہے آج اسی کشمیر میں ہندوستان کے آئین کو بالائےطاق رکھ کھلم کھلا ظلم کی داستان رقم کی جارہی ہے، وہی کشمیر جو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے، اس کے باشندوں کے خون کو پانی سے بھی ارزاں سمجھا جارہا ہے۔

     ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بربریت کے خلاف ہندوستان کے ہر خطے اور ہر قوم سے  آئین کی سربلندی اور  جمہوریت کی روح کے نفاذ کے لیے آواز بلند کی جاتی اور ہر سیکولر ہندوستانی اس معاملے میں آگے آکر ظالموں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال کرتا اور ظالموں کو انکے ظلم سے روکتا؛ لیکن ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے چند افراد کے سوا کوئی نہیں ہے اور ہم سبھوں نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو اپنے دلوں اور خیالوں سے دور کردیا ہے۔

اگر یہ مان لیا جائے کہ برادرانِ وطن ظلم کے خلاف  کھڑے نہیں ہورہے ہیں تو مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ "المومن کجسد واحد" کے فرمان رسول کو سامنے رکھنا تھا ان پر ہورہے مظالم کے خلاف ان کا ساتھ دینا تھا۔ ہندوستان کے آئین کی پاسداری کے لیے جہد مسلسل کرنی تھی، وہی آئین جو ہمارے ملک میں بود و باش اختیار کیے ہوئے شخص کا سب سے بڑا "حامی اور مددگار" ہے۔ اپنے جمہوری نظام میں جمہوریت کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ منظم طریقے پر حکومت وقت کو اس ظلم کو روکنے کے لیے کوششیں کرنی تھی، لیکن خدا کی قسم ہم اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کر سکے اور یاد رکھیں جو اپنے حقوق کا مطالبہ چھوڑ دیتے ہیں، ان کے حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں، ان کے کتب خانے نذر آتش کردیے جاتے ہیں، ان کی تاریخ مٹادی جاتی ہے، ان کو صفحۂ ہستی سے ختم کردیا جاتا ہے۔

لہٰذا اب بھی وقت ہے ہندوستانی مسلمان ہوش کے ناخن لیں جمہوریت کی بقا کے ساتھ اپنے بھائیوں کی آواز بنیں، ان پر ہورہے مظالم کے خلاف کھڑے ہوں، مصلحت کا پردہ چاک کر کے منظم کوشش کریں تو یقیناً ہم سرخ رو ہوں گے اور ظلم کی اس داستان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں ہماری آواز ایک زوردار چیخ کا کام کرےگی جو چیخ کچھ بھی نہ کر سکی تو کم از کم ظالموں کے آلۂ سماعت کو تو متاثر کرےگی، ورنہ قانونِ خداوندی: "إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ" (الرعد: ۱۱) کے زد میں ہم کب آجائیں اس کا انتظار کریں۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے'وہ قاتل کے ساتھ ہے

ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے

اس ڈھنگ پر ہے زور' تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات'نہ مذہب نہ کوئی قوم

ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھیلتی نہیں ہے شاخِ تبسم اس زمیں پر

تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی

یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے

جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے

پُھوٹے گی صبحِ امن ' لہو رنگ ہی سہی

             (ساحر لدھیانوی)

No comments:

Post a Comment