Pages

Monday, 31 December 2018

مغربی تہذیب 🌺🌺🌺

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابولحسن علی ندوی ؒ مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب اور اس کے خطرات او ر خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘اسی طرح اگر مغربی تہذیب اور اس کے وسائل وثمرات سے استفادہ باقاعدہ سوچی سمجھی اسیمے بصیرت وتدبر اور تیر وشر میں تمیز کی بنیاد پر ہوا تو یہ تہذیب ملک کے رہنما ؤں اور ارباب عقد اور علما دین کی مرضی اور خواہش کے خلاف اس ملک یا سوسائٹی پر جبراً قابض ہوجائے گی ۔عوام گرمجوشی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرینگے ،ادبا اہل فکر اس کے لئے راستہ صاف کریں گے، اور خیر وثر اور مفید ومفسر میں تمیز کئے بغیر اس ملک کے باشندے فاقہ زدوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑیں گے ۔ساری اخلاقی ودینی قدریں ا سکے ساتھ فنا ہوجائیں گی۔ ملک کے رہنما اور ذمہ دار سیاست داں اس صورت حال کے سامنے بے دست وپا اور مفلوج نظر آئیں گے اور ا ن کے ہاتھ سے نظام قیادت ہمیشہ کے لئے نکل چکی ہوگی۔’’

اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کے علمائے دین اور اربان نظر وفکر نے تہذیب جدید کے اس چیلنج اور خطرے سے اپنی قوم کو پہلے ہی باخبر کردیا تھا، چونکہ وہ اس کی پیچیدگیوں اور معاشرے پر اس کے اثرات ومضمرات کو اپنے وسیع تجربات سے پہلے ہی دیکھ چکے تھے،پھر ان علموں کی صورت حال جہاں یہ تہذیب فاتحانہ داخل ہوئی ان کے سامنے تھی، اس سے انہوں نے ہمیشہ اس کے امنڈتے ہوئے سیلاب سے اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو بچانے کیلئے نہ صرف حکومت کو خبردار کیا بلکہ خود بھی اس کے سدباب کیلئے جدوجہد کی کیونکہ ان کو اس بات کا خوف تھا کہ اگر یہ تہذیب دورے ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی فاتحانہ داخل ہوگئی ،جیسا کہ زمانہ کا رجحان اس کو قبول کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے تو پھر ہمارے معاشرے کی بھی تمام اخلاقی قدریں فناہوں جائیں گی  ،اور معاشرے میں ایسا انتشار او ربحران پیدا ہوجائے گا جس کا طاقت اور قوت سے مقابلہ ناممکن ہوجائے گا۔

بہت حال ‘‘الکا فراسۃ واحدۃ’’ یعنی تمام کفر اسلام کے خلاف متحد ہے اور اتحاد کا یہ سلسلہ تاریخ بہت قدیم ہے دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اسلام کے خلاف جب بھی کوئی سازش اور پروپیگنڈہ رچا گیا تو دنیا کا تمام کفر ایک صف میں کھڑا نظر آتا ہے ، اور ایک آواز ہوکر وہ اپنی  طاقت وقوت کو اسلام کے خلاف لگادیتے ہیں، بات اس وقت ہم جنس پرستی کی چل رہی ہے ہم جنس پرستی کا جہاں تک تعلق ہے تو بشمول اسلام کے دنیا کے کسی اخلاقی نظام میں اس کو درست یا جائز نہیں بتا گیا ، چاہے وہ مذہب  اہل ہنود کا ہو یا یہودیوں کا ، عیسائیوں  کاہو یا مسلمانوں کا کسی مذہب میں بھی ا سکی اجازت نہیں تو پھر اس کو ہندوستان میں کیسے قانونی جواز مل گیا؟ کیا اہل ہند کے اخلاقی نظام میں اس کی کوئی گنجائش ہے تو شاید ایسا بھی نہیں  ، تو پھر اسکو قانونی جامہ پہنانے والے کون لوگ ہیں؟ اور ان کا تعلق کسی مذہب سے ہے؟ یا ان کا کوئی مذہب ہی نہیں جنہوں نے اس کو قانونی درجہ دیا۔ دراصل اسلام کے خلاف مغربی استعمار اپنے ذہن ودماغ سے اور من گھڑت فلسفوں سے جن چیزو ں کو ایجاد کرتے ہیں، اور پھر وہ اپنے ایجاد کردہ ان جھوٹے نظریات کو اسلام پر تھوپنے کے لیے ایسے افراد تلاش کرتے ہیں جن  کی ذہن سازی خود وہ اپنی آغوش میں کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے مقصد کو پانے میں بڑی کامیابی مل جاتی ہے ۔ اور مغربی سامراج کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اسلام کی روح کو ختم کردیں۔ اس کے نظام معاشرت اور نظام اخلاق ومعاملات کو بالکل نیست ونابود کردیں۔تاکہ لوگ اسلام کے تعلق سے شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائیں۔

دراصل اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کی ترقی سے جب بوکھلاہٹ ہوجاتی ہے تو پھر وہ وقتاًٰ فوقتاً ایسی چیزوں کو منظر عام پر لاتے ہیں جس سے مسلمانوں کے اندر اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجائے، پھر وہ جلسے وجلوس کریں احتجاج اور مظاہروں میں اپنا قیمتی وقت برباد کریں اور ہم مزے سے اپنی قیام گاہوں میں تماشا دیکھیں کیونکہ اسلام دشمن طاقتوں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ جس طرح اسلام نے ماضی میں دنیا کے تمام چیلنجوں کا سامنا آسانی سے کیا ہے تو مستقبل میں بھی اسلام تمام چیلنجوں کا سامنا کر کے دنیا کو ایک صحیح نظام دے سکتا ہے ۔ اسلام کے پاس ایک ایسا نظام حیات ہے جس سے پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم سے انصاف کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف اسلام دشمن طاقتوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتے ،ان تمام  باتوں کو سامنے رکھ کر مغربی استعمار نے اسلام کے خلاف لوئس نہم 1214۔1270کی وصیت پرعمل کیا جو اس سے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے شکست کھانے کے بعد کی تھی کہ ‘‘تم لوگ میدان جنگ میں جنگی سہ زوں سامان اور کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے جب تک ان کا ایمان اور عقیدہ کمزور اور متزلزل نہ ہوجائے ۔لوئس نہم کا یہ وصیت نامہ چار اہم نکات پر مشتمل تھا۔(1) عیسائی مشینری (2) اشتراق (3) تجدد پسندی (4) اسی کو پیش نظر رکھ کر اہل یوروپ نے اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کی۔

ہم جنس پرستی جس کا کسی مذہب میں بھی تصور نہیں ،لیکن جہاں تک تعلق عیسائی او ریہودیوں کے مذہب کا ہے تو یہودی اور عیسائیوں نے مذہب کا تصور اپنے ذہن ودماغ سے نکال پھینکا ۔جب ان کے یہاں سرے سے مذہب کا تصور ہی نہیں تو پھر وہ لوگ ان کی اندھی تقلید کیوں کررہے ہیں جن کے یہاں ابھی مذہب کا کچھ تصور اور تہذیب باقی ہے، جب ہمارے پاس اپنا مذہب اور اپنی تہذیب باقی ہے تو ہم لکیر کے فکیر کیوں بنے ہوئے ہیں ؟کیا ہمیں اپنے مذہب او  رتہذیب کے بارے میں کچھ شک ہےکہ ہم دوسروں کی تہذیب کو اپنانے میں قانون کو بھی ختم کرسکتے ہیں ۔دنیا کی نظر میں شاید اس سے زیادہ ذہنی پستی اور کیا ہوسکتی ہے کہ بے حیائی کی ترویج اور مغرب کی اندھی تقلید میں اپنا سب کچھ داؤں پر لگا یا جاسکتا ہے ۔اس سے صاف طور پر یہ بھی بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ہمارے ملک کے باضمیر لوگوں کے اندر سے احساس زیاں جاتا رہا پھر وہ بھی اپنی نئی نسل کے تعلق سے لاپروا ہوگئے کہ انہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ہم جنس پرستی بلکہ دوسرے الفاظ میں دور جدید کا  ۔معاشرے کے لئے ایسا ناسور ہے جس کےلئے کوئی بھی دوا کار گر ثابت نہیں ہوگی۔ جس کے جراثیم معاشرے کی تمام اخلاقی قدروں کو اس طرح ختم کردیں گے کہ شرم وحیاکا شعور معاشرے کے اندر سے بالکل ختم ہوجائے گا ان یہودیوں کے ساختہ اور پرداختہ لوگوں کو نئی نسل معاف نہیں کرے گی جو ہم پرستی کی وکالت کررہے ہیں اور اس کومعاشرے پر نافذ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کی خوشی کیلئے ہورہا ہے جن کے یہاں عفت وپاکبازی اور شرم وحیا کا ہردن خون ہوتا ہے ۔ خیانت کی اشاعت ان کے یہاں عام ہے۔ ایک موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا تھا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی بلکہ ان کے الفاظ تھے۔

Wed lock born without any way ‘‘یعنی بغیر شادی کیےہوئے حرام بچوں کی ولادت’’ اسی طرح سابق صدر بش نے کہا تھا کہ ایشیا کو Modernize کرنا چاہتے ہیں تو اس مذکورہ اقتباس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں سپرپاور ممالک کے صدر بے حیائی اوردوسرے الفاظ میں حیوانیت کے فروغ کے لئے کتنی جد وجہد کررہے ہیں اور اس طرح کی ایک مثال نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ اہل یوروپ نے مغربی تہذیب کے احیا کے لئے اپنی جان ومال اور قیمتی اثاثہ صرف کیا اور کررہے ہیں۔

عدالت کے توسط سے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم ہوگیا۔ ہم عدالت کے تمام فیصلوں اور قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر کوئی قانون فطرت کو چیلنج کرتا ہے اور خدا کے بنائے ہوئے نظام میں دخل دینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر وہ قانون ،قانون نہیں رہ جاتا بلکہ ایک چیلنج کی شکل اختیار کرلیتا ہے ، اور خدا کے بنائے ہوئے قانون سے جب کوئی قانون بالا تر سمجھا جانے لگتا ہے اور اس کو چیلنج کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے تو اس قانون کو نہ صرف ماننے سے انکار کیا جاتا ہے بلکہ اس کے خلاف جدوجہد بھی واجب ہوجاتی ہے ۔ ہم جنس پرستی  کو عدالت کے کچھ ججوں نے فطری کے قانون اور ضابطوں سے بغاوت کر کے قانونی شکل دیدی تو ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم عدالت کے اس فیصلہ پر سرتسلیم خم کرلیں ۔ ویسے ہم عدالت کے ہر فیصلہ کو مانتے ہیں اور اپنے ملک کے ان تمام قوانین کو جن کا تعلق نسل انسانی کے ان اصول اور ضابطوں سے ہے جو خود کے بنائے ہوئے نظام سے تصادم نہیں کرتے لیکن اگر کوئی قانون خدا کے قانون سے متصادم ہوتا ہے تو یہ خدا کے قانون کے خلاف سراسر بغاوت ہے۔ہم اس کو کسی بھی صورت میں نہیں مان سکتے ، چونکہ ہمارے نزدیک خدا کے بنائے ہوئے قانون کو چیلنج کرنا ہلاکت اور بربادی کا سبب ہے وہ قومیں اس کا مشاہد ہ بھی کرچکی ہیں جنہوں نے خدا کے قانون کو چیلنج کیا ہے۔

ہمیں سب سے زیادہ افسوس اپنی موجودہ حکومت پر ہے کہ وہ اس سنگین اور قومی مسئلہ پر خامو ش کیو ں ہے؟ کیا حکومت ان چند لوگوں سے خوف کھارہی ہے جو اس کی وکالت کررہے ہیں یا پھر دیگر معاملات کی طرح حکومت اس میں بھی اپنا مستقبل دیکھ رہی ہے ،حکومت ہند اس حساس ونازک مسئلہ پر خاموشی سے کام نہ لے اور ان لوگوں کی سرپرستی سے اپنے دامن کو بچائے ،کیونکہ یہ مسئلہ صرف ہم جنس پرستوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ اگر حکومت ہند نے اس کے اقدام کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو ہمارا معاشرہ مغربی معاشرہ کی طرح قوم لوط کی بستی بن جائے گا اورا صلاح کا کوئی بھی نسخہ کار گر ثابت نہیں ہوگا۔اس لئے حکومت عدالت کے اس فیصلہ کو کسی بھی صورت میں کالعدم قرار دے۔

No comments:

Post a Comment