سُنا تھا ہم نے لوگوں سے
مُحبّت چیز ایسی ہے
چُھپائے چھُپ نہیں سکتی
دبائے دب نہیں سکتی
یہ چہرے سے جھلکتی ہے
یہ لہجہ میں مہکتی ہے
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ راتوں کو جگاتی ہے
یہ آنکھوں کو رُلاتی ہے
مگر یہ سب اگر سچ ہے !
تو اے لوگو ! محمد سے
تمہیں کیسی مُحبّت ہے ،
نہ چہروں سے جھلکتی ہے
نہ لہجوں میں مہکتی ہے
نہ آنکھوں کو رُلاتی ہے
نہ راتوں کو جگاتی ہے
بتاؤ ! یہ تُمہیں آقائے مدنی سے
بھلا کیسی مُحبّت ہے
بھلا کیسی مُحبّت ہے ۔۔۔
No comments:
Post a Comment