Pages

Saturday, 15 December 2018

سبق آموز کہانی

*يه کهاني ایک نيک دل انسان اور ایک غریب عورت کی هے*

*صبح کے  8 بج چوکے تهے میں بهى آفيس کے ليے تيار هوا جب میں گهر سے نکلا اور بس اسٹوپ پر بس آنے کا انتظار کررها تها*

*میں نے دیکھا سڑک کے دوسرے کنارے ايک غریب عورت پهل بيچ رهى تهي  ديکهتے هى ديکهتے ايک دو آدمی آئے اور اس غریب عورت سے ؤه سارے پهل لے ليے.*

*جب اس کے سارے پهل فروخت هؤگئے تو ؤه غریب عورت ميرے سامنے کهڑى هؤگئى.*

*میں نے سوچإ کہ ؤه غریب عورت  بهى بس کا انتظار کر رهى هؤ گی، میں نے ايک سوال کيا؟ کہ آپ دن میں ان پهلؤن سے کتنا کما لىتى هيں؟*

*عورت نے جواب ديا، بيٹا بس پيٹ کا گزارا هو جاتا هے،*
*باتوں باتوں میں بس آگئی.هم دونوں بس میں بيٹه گئی.*
*جب اس غریب عورت کا گهر آيا اور ؤه اترنے هي والی تھى کہ ٹکٹ والے نے اس غریب عورت کو کہاکہ جو آپنے پيسے ديے هيں ؤه جعلی هے ، آپ دوسرے پيسے دے؟*

*عورتؤه وو سن کر رونے لگى، اور بولى بيٹا میں نے ابھی ابھی پهل بيچ کر يہ پيسے کمائیں هے مجھے کيا پتا کہ ؤه جعلی نکلیں گے، تو بس والے نے دهکے دے کر اس کو اتارنا چاہا ، لیکن میں نے کہا آپ ا نہیں دهکے نہ دو پيسے میں دے ديتا هؤں،*

*پيسے دينے کہ بعد اس غریب عورت نے ميرا شکریہ ادا کيا*
*اورگهر پے آنے کی دعوت دی.*
*میں اس غریب عورت کے گهر گیا ، مين کيا ديکهتا هوں اس کے گهر میں اس کا معذور شوهر اور اس کی دؤ٢ معصوم سی بچيياں هيں*•

*جيسے هى میں نے دروازہ کھولا تھا مجھ کو ايسے دیکھنے میں آیا تھا کہ ؤوه دو٢ معصوم اور ؤو معذور شوھر بس اس غریب عورت کا ھی انتظار کر رہے تھے.*

*تینو کی آنکھوں میں نعمی تھی اس معصوم بچیوں کی آنکھوں نے تو مجھے رونے پر مجبور کر دیا تھا، ایسے دیکھنے میں آرہا تھا جسی وو کافی دنوں سے بوکھے ہوں یہ ماحول دیکھنے کے بعد تو میرے آنسوں روکھ ہی نہی رہی تھے .*

*میں نے  کچھ پیسے دے کر وہاں سے چل دیا کچھ دنوں کے بعد اسی ٹائم پر  میں وہاں گیا لیکن میں نے دیکھا کے وو غریب عورت وہاں نہی تھی جب میں ان کے گھر گیا تو دیکھا گھر میں  کوئی نہی ہے.*

*ایک آدمی آیا اور پوچھا اپ کون  ؟*
*میں نے کھا کے میں ان کو جانتا ہوں یہ لوگ کھاں گئے؟*

*آدمی بولا کیا اپ کو نہی پتا کے یہ لوگ کب کے مر گئے ؟*
*میں نے کہا کیسے کب اور  یہ سب کیسے ہوا ؟*
*آدمی نے جواب دیا کے اس عورت نے دونوں بچیوں کو اور شوہر کو زھر دے کر مار دیا اس کے بعد خود زھر کھا کر مر گئی وو سب بتا کر آدمی چل دیا*

*میں وو باتیں سن کر بہت دکھی  ہوا دکھ میں کچھ دیر زمین پر بیٹھا رہا جب اٹھ رہا تھا  تو مجھے وہاں ایک سفید کاغذ ملا جس پر کچھ لکھا تھا کہ*

*"میں اپنے ھوش ؤ آواز میں اپنے شوھر اور اپنے بچوں کو زھر دے رہی ہوں کیوں کے  اس جہاں کے لوگ ہم کو  جینے نہیں دیں گے غریب انسان مرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکھتا ہے جب میں عزت اور محنت سے کما رہی تھی اپنے بچوں کا پیٹ پالنے نکلی تھی اتنی شدید گرمی اور سردی میں دؤ٢ روپے کما کر اپنے معصوم بچوں کی دو٢ وقت کی روٹی لاتی تھی اس میں بی ان لوگوں نے ہمیں نہی چھوڑا یہ کئی بار ہو چوکا ہے ہمارے ساتھ کیس کو بتائیں کون سنے گا یھاں غریبوں کی،*

*یہ لوگ مسلمان تو نہی ہو سکھتے ، اس کی سزا تو انکو اوپر ملے گی جب ٱس رب کا انصاف ہوگا. آج میں نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کیوں کے میرے پاس زھر کھانے کہ ہی پیسے تھے ، ان پیسوں سے اگر میں پھل اور سبزی وغیرہ لیتی تو پھر اور کوئی غریب سمجھ کر لوٹ مار کر کے آثانی سے چلا جاتا یہ دکھ پھر سے نہ ملے یہ سوچ کر میں نے یہ بڑا قدم اٹھایا ، دوسروں کے لیے ایک سبق بنوں کہ جب کوئی غریب دیکھوں تو اپ اس سے پھل وغیرہ خریدو لیکن ایمانداری سے پھر سے  نہ کسی  غریب کا گھر میری طرح برباد  هوجائی*..

*میں یہ  خط پڑ کر بہت رویا اور وعدہ کیا کہ میں غریبوں کی مدد کروں گا پھل لوں گا لیکن ایمانداری سے*
*میسج
اپ بھی کیسی غریب سے  کوچھ لیں تو محبت اور ایمانداری سے ٱس کو غریب دیکھ کر لوٹ مار ناکرے اور جعلی پيسے دینے سے پرہیز کریں*

No comments:

Post a Comment