Pages

Monday, 24 December 2018

بیٹی ہے تو جان سے مار دیں کیا ؟


ریلوےاسٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی تو پورے اسٹیشن پر میرے سوا صرف ایک بزرگ اترتے ہوئے نظر آئے ۔ دیہات کا اسٹیشن اور شام آٹھ بجے کی ٹرین ! یہ کوئی تعجب خیزبات نہیں تھی ۔ اسٹیشن کے سامنے والے حصے میں جنریٹر کی روشنی تھی ، پچھلے حصے میں اسی کی روشنی چھن چھن کر آجارہی تھی ورنہ باضابطہ ادھر کوئی بلب روشن نہیں تھا ، مجھے اسی پیچھے  طرف سے گاؤں کی راہ لینی تھی ، گرمی کا موسم تھا اور آسمان پر چاند مکمل ہو گیا تھا سو روشنی مدھم ضرور تھی لیکن حسین کم نہیں تھی ، ریلوے اسٹیشن سے نکلتے ہی کھیتوں کا سلسلہ تھا ، پیڑ پودے تھے ، ان سے جانی پہچانی آوازيں اور خوشبو نکل  رہی تھی اور پورے وجود کو مہکائے جارہی تھی ۔ میں نے دیکھا کہ بزرگ بھی  میری ہی طرف بڑھ رہے ہیں سو قدموں کی تیزی کو سستی میں تبدیل کرتے ہوئے اچھا محسوس ہوا ، بزرگ بھی جیسے تیز  قدم اسی لیے بڑھا رہے تھے کہ مجھ تک جلد پہنچ سکیں ، یوں وہ جلد ہی مجھ سے آملے ۔
کہاں جائیں گے بابو ؟ ایک ٹوٹی ہوئی تھکی ہوئی آواز سماعت سے ٹکرائی ۔
چچا ، میں تو رام پور کا رہنے والا ہوں ، وہیں جانا ہے ۔ آپ کہاں جائیں گے اور اس وقت کہاں سے آرہے ہیں ؟
چچا : بابو ، شہر گیا تھا ، لوٹتے لوٹتے دیر ہوگئی ، بارہ بجے والی ٹرین چھوٹ گئی سو پانچ بجے والی پکڑی ، اب جاکے اس نے پہنچایا ہے ۔ رام پور تو بعد میں آئے گا ، پہلے تو ہماری بستی آئے گی ، ہم داؤد نگر کے ہیں ۔
میں : اچھا ، داؤد نگر کے ہیں آپ ؟ ما شاءاللہ ، لیکن اس بڑھاپے میں اس رات کو سفر کرتے آپ کو احتیاط برتنی چاہیے ۔
چچا : بابو ، زندگی جب اپنے بوجھ تلے دباتی ہے تو اس وقت احتیاط وحتیاط سے کچھ نہیں ہوتا ، آپ کو اس کے ساتھ چلنا ہی پڑتا ہے ۔بیٹیاں بڑی ہوگئی ہیں ، ایک کی شادی کی تھی ، اللہ غارت کرے ، اس نے تنگ تنگ کر کرکے بچی کو جیسے زندہ لاشہ بنادیا ، پچھلے چار سالوں سے گھر پر بیٹھی ہوئی ہے ، نہ اس کے مطالبے پورے ہوتے ہیں اور نہ وہ اس ابھاگن کو اپنے گھر لے جانے کو تیار ہے ۔ دوسری بڑی ہی ہی نہیں ہوئی ، زیاد ہ ہی بڑی ہوگئی ہے ،  اس کی شادی کی عمر نہ گزر جائے اس ڈر سے رہا سہا سرمایہ بیچ کر ایک جگہ رشتہ لگایا ہے ،اسی سلسلے میں شہر گیا تھا ، فرنیچر ، زیور وغیرہ کے سلسلے میں ۔
میں : او ہو ، یہ تو ہمارے سماج کا بڑا مسئلہ ہے چچا ۔ اللہ خیر کرے۔
چچا : مسئلہ ہے نہیں بابو ، ہم نے بنا لیا ہے۔ اب دیکھیے کہ آپ ویسے توکتنے مہذب اور سمجھدار لگ رہے ہیں ، دل کہتا ہے کہ آپ اپنی شادی کریں گے تو کچھ بھی نہیں لیں گے لیکن عقل سمجھاتی ہے کہ ایسے لوگ ہی تو لے رہے ہیں جن سے توقع نہیں رہتی ۔میرا پہلا داماد جس نے میری بیٹی کو میرے گھر بٹھایا ہوا ہے ، وہ بھی باتیں بہت اچھی کرتا ہے ۔
میں : ( میرے اندر کا انسان ہلا ہوا تھا ، کچھ ہی دن پہلے میری شادی کی بات ہوئی تھی اور مجھے ایک ٹاٹا سومو کے ساتھ شہر میں ایک فلیٹ بھی مل رہا تھا ) چچا ، لیکن لڑکی والوں کا بھی قصور ہے ۔
چچا : ہاں بابو ، ان کا قصور ہی تو ہے کہ انہوں نےبیٹی کو جنم دیا ، اس کو پالا پوسا ، بڑا کیا ، ورنہ عقلمند ہوتے تو پیدا ہوتے ہی درگور کردیتے جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کردیا کرتے تھے ۔ ( چچا کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ، ہم دونوں کے بیچ تھوڑی دیر سناٹا رہا  پھر وہ گویا ہوئے ) بابو ، برا مت مانیے گا ، درد اتنا زیادہ ہے کہ کنٹرول نہیں ہوتا ، کہیں بھی چھلک جاتا ہے ۔
میں : نہیں چچا ، ایسی بات نہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود بہت شرمندہ ہوں ، اللہ آپ کا غم غلط کرے ۔
کچھ دیر بعد ان کی بستی نظر آنے لگی ، ان کے چلنے کی رفتار مزید تیز ہوگئی اور گفتگو نے ایک اور رخ لے لیا ؛
چچا : بابو ، وہ دیکھیے ہماری بستی بھی آہی گئی ، ایسا کیجیے کہ رات غریب خانے پر ہی رک جائیے ، کھانا ہمارے ساتھ کھائیے ، صبح ناشتہ کرکے نکل جائیے گا ، رات ہورہی ہے اور آپ کو ابھی اور بھی آگے جانا ہے ۔
میں : بہت شکریہ چچا ، لیکن میں چلا جاؤں گا ، آپ پریشان نہ ہوں ، راستہ ماشاءاللہ مامون ہے ۔
چچا : بابو ، راستہ تو ماشاءاللہ مامون ہے لیکن ہمارا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے ۔
  ہم ان کے دروازے پر پہنچے تو دروازہ کھلنے میں کوئی تاخير نہ ہوئی  جیسےگھر کے افراد انتظار ہی میں ہوں ۔ انہوں نے مجھے باہر والے کمرے میں بٹھایا ، پانی لاکر دیا اور خود اندر چلے گئے ۔ پندرہ بیس منٹ کے اندر وہ باہر آئے ، کھانا دسترخوان پر لگا دیا گيا تھا ۔کھانا سادہ تھا ، روٹیاں ، سبزی ، ایک انڈا ، ایک کٹورے میں دودھ اور ایک طشتری میں چٹنی لیکن دسترخوان سلیقے کی گواہی دے رہا تھا ۔ نہ جانے کیوں ارادے کے بر عکس میں نے بھرپیٹ کھانا کھایا ، چچا نے میزبانی بھی پوری محبت سے کی ۔
بستر پر آنے کےبعد نیند میری آنکھوں سے دور تھی ، راستے کی باتیں مجھے پریشان کررہی تھیں ، میں کروٹیں بدل رہا تھا تبھی اندر سے کچھ کمزور سی غیر واضح آوازیں کانوں سے ٹکرائیں جیسے کوئی کہ رہا ہو ، راحت کی اماں ، تم ایسی باتیں کیوں کرتی ہو ، اللہ کی بندی ، ہمیں تو اللہ کا حکم ماننا ہی ہوگا نا ، تم کیا کہنا چاہتی ہو ، ارے زمینیں بگ گئیں تو ہم اپنی بیٹیوں کو مار دیں ، آخر اس میں ان کا کیا قصور ہے ، تم کیا چاہتی ہو انہیں زندہ جلادیں ، جاہلیت کے زمانے کی طرح انہیں مار دیں ۔ پگلی ، یہ بھی آزمائش ہے ، اللہ سے دعا کرو کہ اچھے اچھے سےبچی رخصت ہو جائے ، اس کے بعد ایک فرحت رہ جائے گی تو اللہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی انتظام کر دے گا ۔
  نہ جانے کب مجھے نیند آگئی ، مجھے پتہ نہ چلا ، صبح فجر کے وقت چچا نے آواز دی تو نیند کھلی ، ہم نے نماز باجماعت ادا کی ، واپس گھر آئے تو بسکٹ چائے سے انہوں نے تواضع کیا اور ناشتہ کھاکر جانے پر اصرار کیا ۔ میں نے ان کا شکریہ اد اکیا اور اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی ۔
ہم جب گھر پہنچے تو گھر پر خوشیوں کی بہار تھی ، ہماری ہونے والی سسرال سے یہ خوش خبری آئی تھی کہ ٹاٹا سومو اور فلیٹ دونوں کی چابی لے کر میرے ہونےو الے چھوٹے سالے صاحب آج ہی شام پہنچنے والے ہیں ۔ گھر پر جیسے ہر آدمی خوشیوں میں نہا رہا تھا ، میں نے ناشتہ کرنے کے بعد آرام کرنا چاہا لیکن طبیعت بھاری بھاری سی ہی رہی ۔ زندگی میں پہلی بار کسی کی مصیبت کو اتنے قریب سے دیکھا  اور محسوس کیا تھا ۔
شام کو جب میر ے ہونےو الے چھوٹے سالے صاحب چابیاں لے کر پہنچے تو ان کا شایان شان استقبال کیا گيا ، ہمیں بھی گھر کے لوگوں نے رشک بھری نگاہوں سے دیکھا ، پھوپھیوں اور خالاؤں نے بلائیں لیں اور بہنیں بار بار دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہیں جب کہ بھابیاں چھیڑ کرنے میں لگی ہوئی تھیں لیکن اپنا تو اندر کا سکون ہلا ہوا تھا ۔
رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے ہم ہی اپنے سالے کے ساتھ باہر نکلے ، ٹاٹا سومو اور فلیٹ سے ہوتے ہوئے گفتگو شادی کے بقیہ اخراجات کی طرف مڑگئی اور اندازہ ہوا کہ اس میں نہیں بھی تو پچاس ساٹھ لاکھ کا خرچ آئے گا ۔سالے صاحب بہت سنبھل کر گفتگو کررہے تھے لیکن ان کا درد اور اندر کا زخم باہر آہی جارہا تھا ۔ ان کی خوشی میں اداسی اور مسکراہٹ میں بے بسی مجھے صاف نظر آرہی تھی ۔ اب کہ میں نے ایک فیصلہ لیا اور ان سے کہا :
بھائی صاحب ،  آپ لوگوں کو بھی کتنی پریشانی ہورہی ہوگی نا ؟
سالے صاحب : ارے نہیں ، آپ کیا بات کررہے ہیں ، شادی میں تو یہ سب کچھ ہوتا ہی ہے ۔۔
میں : نہیں ، میں سمجھ سکتا ہوں کہ کیا پریشانی ہوتی ہوگی ، رات ایک ماں تنگ آکر اپنی بیٹی کو مار دینا چاہتی تھی ، میں نےانہيں پورا واقعہ سنایا اور ان سے کہا : اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں بغیر کسی چيز کے آپ کی بہن سے نکاح کرلوں اور ہم دونوں مل کر انہیں پیسوں سے اس بزرگ کی بیٹیوں کی شادی کرادیں ۔
سالے صاحب :جناب ، آپ نے دل جیت لیا ، مجھے نہ معلوم کیوں ، آپ کے اندر اول روز سے ایک نہایت ہمدرد آدمی دکھ رہا تھا ، آج آپ نے میرے گمان کو صحیح ثابت کردیا ۔
دوسرے دن سالے صاحب کے ساتھ میرے ہونےوالے سسر بھی تھے اور ہم تینوں بزرگ کے دروازے پر تھے ۔ ہماری گاڑی ان کے دروازے پررکی تو پہلے تو وہ گھبرائے اور پھر جب مجھ پر نظر پڑی تو بہت خوش ہوئے ۔
ہمارے ہونے والے  سسر نے ان سے جو بات کہی وہ تو ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی : جناب ، آپ کی بیٹیاں بڑی پیاری اور مہذب ہیں ، شادی کی بات جہاں چلی ہے وہاں ضرور کیجیے ، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ، وہ بچیاں آپ ہی کی نہیں ہماری بھی ہیں اور اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو چھوٹی والی بیٹی سے ہمارے بیٹے کا رشتہ قبول کیجیے ۔
چچا کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم اپنے سالے سے گلے مل کر رورہے تھے ۔ اللہ قسم زندگی میں ایسا سکون کبھی نہیں ملا تھا ۔
عابد کی داستان سن کر افسر نے بس اتنا کہا : یار ، یہ تو کہانی لگتی ہے ، کیا واقعی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسے اقدامات کرسکتے ہیں ۔ ایسے کاش ہم سمجھ سکتے ۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔

1 comment: