Pages

Tuesday, 18 December 2018

ہم توسنار تھے ، لوگو ں نے لوہار سمجھ لیا


میں ایک مرتبہ میرے شیخ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اس وقت وہاں اور کوئی نہیں تھا ، صرف میں تھا ۔ اسی درمیان میں ایک آدمی آیا اور حضرت سے تعویذ مانگنے لگا ۔ حضرت نے کہاکہ میں تعویذ نہیں دیا کرتا ۔ جائو بھائی جان سے لے لو ! ( بھائی جان سے مراد حضرت والاکے صاحب زادے ہیں ، جن کو طلبا اور عوام سب بھائی جان کہتے ہیں ) وہ شخص باہر گیا ، پھر تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگا ، حضرت ! آپ ہی دیدیجیے ، حضرت والا رحمہ اللہ نے پھر فرمایا : میں تعویذ نہیں دیا کرتا ، بھائی جان سے لے لو ۔ وہ شخص پھر باہر گیا اور کچھ دیر کے بعدپھر آکر اسی طرح کہاکہ حضرت ! تعویذ آپ ہی دیدیجیے ، حضرت نے پھر وہی جواب دیااور اس کو بھیج دیا اور میری طرف دیکھ کر فرمانے لگے : بھائی ! ہم تو سنار تھے ، لوگوں نے ہمیں لوہار سمجھ لیا ، یعنی کوئی سنار کے پاس لوہے کاکچھ کام بنانے لے جائے تو یہ ’’ وضع الشيء في غیر محلہ ‘‘ کی قبیل سے ہو گا ، اسی طرح آج لوگ اللہ وا لوں کے پاس بہ جائے اپنی اصلاح کرانے کے اور معرفت الٰہی حاصل کرنے کے ، دینی باتیں معلوم کرنے کے ، وصول الی ا للہ کے طرق معلوم کرنے کے ، تعویذ کے بارے میں پوچھنے جا تے ہیں ، دنیا کے بارے میں معلوم کرنے جاتے ہیں کہ حضرت میرا فلاں کام رک گیا ہے ، حل کردیجیے وغیرہ وغیرہ ۔
ایک مرتبہ حضرت شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ جب بیمار ہو کر ممبئی میں زیرِ علاج تھے ، میں وہاں حضرت کی زیارت کے لیے حاضر ہو ا ، بعد عصر لوگ زیارت وملاقات کے لیے حا ضری دیتے تھے اور حضرت والاکبھی خود پانچ دس منٹ بیان کرتے اور کبھی کوئی مہمان عالم ہو تے ، تو ان کو وعظ کہنے کا حکم دیتے تھے ، اس دن مجھ سے فرمایا کہ آج آپ کچھ دینی باتیں لوگوں کو بتادیں ، تعمیل حکم میں میں بیان کر رہا تھا کہ حضرت والا بھی اوپر سے جہاں قیام تھا تشریف لے آئے اور اس میں میں نے حضرت مسیح الامت کا یہی واقعہ بھی سنایا ، تو حضرت والا اس سے بہت متأثر ہوئے اور فرمایا کہ مولانا نے بڑی خوب بات فرمائی ، بڑی خوب بات فرمائی ۔

(واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)

No comments:

Post a Comment