دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا
فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا
اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا
ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا
طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آئے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا
دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا
No comments:
Post a Comment