ہاتھوں میں موبائل ہے عبادت سے دُور ہوں
سردارِ انبیاء کی اطاعت سے دُور ہوں
دعوت سے دُور، پیرِ طریقت سے دُور ہوں
اغیار کے قریب ہوں مِلت سے دُور ہوں
تسبیح ہے نہ قرآن ہے ہاتھوں میں آجکل
اذکار کے انوار و تلاوت سے دُور ہوں
جب سے میں حسینوں کا طلب گار ہُوا ہوں
آقائے نامدار کی مِدحت سے دُور ہوں
یہ میری بدنصیبی یا اثراتِ معصیت
خدامِ صحابہ کی جماعت سے دُور ہوں
تلوار کیا اُٹھاوں گا دشمن کے مقابل
مسواک جیسی بہتریں سُنت سے دُور ہوں
غافل سا ہوں میں کُونُو مَعَ الصّادِقِین سے
سچوں کی ہمنشینی و خدمت سے دُور ہوں
سیلفی بھی معصیت ہے رِیا ہے مگر میں کیوں
توبہ سے دُور اشکِ ندامت سے دُور ہوں
صوفی ہوں،نہ داعی ہوں،نہ غازی ہوں میں ہُدہُد
جُھوٹوں کا ہمسفر ہوں صداقت سے دُور ہوں
✍ہُدہُد الہ آبادی
No comments:
Post a Comment