جب بصیرت پر عقیدت غالب آتی ہے
پھر حقیقت نہیں عقل کو سمجھ آتی ہے
ڈاکٹر نوشاد صاحب جو آج کل اتحاد کا نعرہ لگا کر صلح کے متعلق کبھی معراج الدین نام نوجوان کے ذریعے پیغامات وائرل کرواتے ہے پھر کبھی خود ہی اپنی آواز میں بات چلاتے ہیں کہ وہ فلاں کی اولاد ہے کوئی فلاں ہے وغیرہ جس پر اب سوالات اٹھنا شروع ہو چکے ہیں کہ آخر ڈاکٹر نوشاد بصیرت سے ہٹ کر خاندان پرستی والی عقیدت میں کیوں مبتلا ہیں.؟
یاد رکھیں
*دعوت و تبلیغ کے اس دور اختلاف میں شخصیت پرستی, نسل پرستی اور مکان پرستی کی حدود سے نکل کر اکابر علماء امت و اہل بصیرت،جمہور علمائے اہل سنت کی سرپرستی میں چلنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔ ورنہ سعد کاندھلوی کی اندھی عقیدت کے چکر میں عقائد کے مجروح ہوجانے کا ڈر ہے۔*
حیرت ہوتی ڈاکٹر نوشاد کی باتوں پر
کیونکہ حضرت حاجی عبد الوہاب صاحب نور اللہ مرقدہ وہ ہستی تھے جنہوں نے
مولانا الیاس صاحب کے ساتھ کام کیا
مولانا یوسف صاحب کے ساتھ کام کیا
مولانا ہارون صاحب کے ساتھ کام کیا پھر
حاجی صاحب نے مولوی سعد کو گود میں کھلایا اور سعد کاندھلوی کو بچپن سے لیکر پچپن تک دیکھا اور واضح طور پر امت کو سعد کاندھلوی کی حقیقت بتا کر چلے گئے. جتنا وقت حاجی عبد الوہاب صاحب نے اس خاندان کے ساتھ گزارا ہے اتنا کسی نے نہیں اور جتنی عقیدت و بصیرت حاجی عبد الوہاب صاحب اس خاندان سے رکھتے تھے اتنا اپنے خاندان سے نہیں رکھی لیکن حاجی عبد الوہاب صاحب ایک صاحب بصیرت ہستی تھے نہ کہ صرف عقیدت اسلئے جب انہوں مولوی سعد کا مکروہ رویہ دیکھا تو ڈاکٹر نوشاد یا دوسرے نسل پرستوں کی طرح خاندان کے نام پر اور انکے دادا پر دادا کے نام پر مولوی سعد کی اندھی عقیدت کرنے بجائے ساری امت کو مولوی سعد کی حقیقت بتا کر چلے گئے. اور ہمیں یہ سبق سکھایا کہ کوئی بھی جس خاندان سے بھی ہو لیکن اگر غلط کریگا تو غلط کہا جائے گا.
ملاحظہ فرمائیں کچھ اہم باتیں حاجی صاحب کی مولوی سعد سے متعلق ہے
🔘 *مجھے پتہ چلا کہ سعد نے اپنے آپ کو امیر کہا میں ڈر گیا جس کے دل میں اپنی بڑائی آگئی اللہ پاک اس سے کام نہیں لیتے اور اس پر لوگوں کے دلوں کو متفق نہیں کرتے
کہ سعد بڑا*
🔘 *اگر ساری دنیا بھی سعد سے بعیت کر لے تو سعد امیر نہیں مانا جائے گا*
🔘 *پتہ نہیں سعد سے کیا گناہ ہوگیا جس کی وجہ سے اسنے اپنے آپ کو امیر کہا لیکن یاد رکھو اللہ پاک ایسوں کو نکال کر پھینک دینگے خاندان ہی ختم ہو جائے گا.*
🔘 *یہ نظام الدین والے چودھری بننا چاہتے ہیں.*
اور بہت سی باتیں ہیں.
اسلئے احباب سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر نوشاد کی حاجی عبد الوہاب صاحب کے متعلق من گھڑت جھوٹی باتوں میں نہ آئے جس کو سننا ہو وہ حاجی صاحب کی مولوی سعد کے متعلق وضاحت خود سنیں جس میں حضرت مولانا فہیم خان صاحب نے بھی وضاحت کی ہے.
یہ کیسی بات ہے کہ جب حاجی عبد الوہاب صاحب نے اپنی زندگی میں مراکز کو لکھے گئے خط میں اختلاف کا سارا ذمہ اور قصوروار مولوی سعد کو بتایا ہے اور اختلاف کے حل کے لئے مولوی سعد پر تین شرائط رکھی ہے. لیکن افسوس بجائے اسکے کہ ڈاکٹر نوشاد وغیرہ جاکر مولوی سعد سے کہتے کہ حاجی عبد الوہاب صاحب آپ ہم سب کے روحانی سرپرست تھے انکی بات مان لوں اور وہاں ہندوستان میں آپ کے اساتذہ کی بات مان لوں اور علماء دیوبند کے نظریات کا لحاظ کرتے ہوئے کام کرو مسئلہ ختم ہو جائے گا. لیکن یہ نہیں کہتے اور ادھر ادھر کی بات کرکے امت کو مزید منتشر کر رہے ہیں.
👈کیا ضرورت ہے پانچ آدمی یہاں سے پانچ وہاں سے؟
👈کیا ضرورت یہ خطوط کی؟
👈کیا ضرورت یہ خاندان پرستی کی باتوں کی؟
👈جب حاجی عبد الوہاب صاحب نے صاف بتا دیا تھا کہ اختلاف کے مسئلہ کا حل صرف مولوی سعد پر ہے تو پھر کیوں یہ سارے تماشہ کیا جا رہا ہے؟
👈کیوں یہ نہیں کہا جاتا مولوی سعد سے کہ حاجی صاحب کی زندگی میں نہ سہی انکی وفات کے بعد ہی انکی بات سہی مان لوں.؟
👈کیا حاجی عبد الوہاب صاحب کو پتہ نہیں تھا کہ مولوی سعد کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں؟
کیا حاجی عبد الوہاب صاحب کی بات ہمارے لئے حرف آخر نہیں؟
👈کیا ہم حاجی عبد الوہاب صاحب کی روح مبارک کو تکلیف دینا چاہتے ہیں؟
👈کیا آج ہم عقیدت میں بصیرت کو بھول گئے؟
خدارا سوچیں سمجھیں ہوش کے ناخن لیں.
اللّٰہ تعالٰی صحیح سمجھ اور بصیرت عطا فرمائے.
0 comments:
Post a Comment