" عبداللہ بھائی صرف پڑھے لکھے لوگوں کو آئیڈیاز دے رہے ہو، ہم غریب اور ان پڑھ لوگوں کے لئے بھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار نہیں ہے ؟؟"
یہ ظہور احمد کی آواز تھی جو شاید میرے کاروباری سلسلے کے مضامین پڑھ رہے تھے ، آئیڈیاز دیکھ رہے تھے ۔۔
میں نے ٹھنڈے دل سے ان کا اعتراض سنا اور عرض کیا
"آپ تو ماشاء اللہ میٹرک پاس ہیں تو خود کو ان پڑھ کیوں کہہ رہے ہیں ؟؟"
" بس بھائی آج کل تو ایم ۔ اے پاس ہی پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے"
پھر آپ اختر کی مثال لیجئے
"وہ کیسے ؟؟"
" اختر نے 2006 میں میٹرک کیا ، متوسط فیملی ہونے کی وجہ سے تعلیم کے لئے اخراجات کا کوئی سلسلہ نہ تھا اس لئے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور کام کرنے کی ٹھان لی ، سوچ بچار کی، مگر کچھ بھی نہیں بن پارہا تھا ، ایک دن وہ میرے سینئر کے پاس آگیا۔ انہوں نے اسے سمجھایا کہ اگر بغیر پیسے کے کچھ کرنا ہے، کچھ کمانا ہے تو شارٹ ہنر سیکھ لو ، ابھی تک اس کے اوپر گھر کی کوئی ذمہ داری نہ تھی اس لئے وہ کام سیکھنے کے لئے وقت نکال سکتا تھا ، اس نے ہر بازار گھوما، شہر بھر کی مارکیٹیں چھان ماریں تب جا کر اسے ایک آئیڈیا ہاتھ لگا کہ اس کام کو سیکھ لینے میں اچھا رزق ملنے کی توقع ہے۔۔
اس سے اگلے دن وہ آٹو مارکیٹ میں تھا ، اردگرد سے پوچھ کر اس نے کوئی رابطہ نکالا ، کوئی واسطہ تلاش کیا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد وہ کام سیکھنے کے لئے بیٹھ گیا اس سے پہلے کہ کہانی کو آگے لے چلوں یہ معلومات ملاحظہ کیجئے
آٹو مارکیٹ میں ہونے والے کام :
آٹو مارکیٹ میں مختلف کام ہوتے ہیں ، موٹر سائیکل کے کمیشن ایجنٹس ہوتے ہیں جو فی گاڑی سودا بنوانے میں معقول معاوضہ لیتے ہیں، جو کہ فی گاڑی دو ہزار سے پانچ ہزار تک ہوتا ہے ، اس مارکیٹ میں آٹو سپئیر پارٹس کی شاپس بھی ہوتی ہیں جو کہ ایک مستقل بزنس ہے، لاک اوپن کرنے ، رپئرنگ اور سروس کرنے کے لئے بھی دکانیں بنی ہوتی ہیں جو کہ مستقل کاروباری اشکال ہیں ، اسی مارکیٹ میں کچھ ہنر مند ہوتے ہیں ، الیکٹریشن کا ہنر رکھنے والا گاڑی کی لائٹس ، ہارن اور بیٹری کے نظام سے واقف ہوتا ہے، اس کے علاوہ نمبر پلیٹ میکر ، باڈی میکر ، ڈینٹر ، پینٹر ، ٹائر سروس ، پنکچر وغیرہ کے کام بھی اسی مارکیٹ سے وابستہ ہیں۔ دکانوں کے علاوہ سارے کام دس سے بیس ہزار میں شروع کئے جاسکتے ہیں۔ گوکہ اس طرح کے کاموں میں کوئی خاص ترقی کے مواقع نہیں لیکن پھر بھی ضروریات باآسانی پوری ہوجاتی ہیں ،
اختر نے کون سا کام سیکھا؟؟
اس نے محسوس کیا کہ نمبر پلیٹ بنانے والا معمولی سے کام کے ڈیڑھ سو سے دو سو لے رہا ہے اور کام بھی اتنا مشکل نہیں تو اس نے یہی کام سیکھنا شروع کردیا ، استاد ذرا موڈی قسم کا تھا لیکن پھر بھی یہ اپنے شوق کی وجہ سے ہنر پہ قدرت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا ، چار سے پانچ ماہ میں اس نے سب کچھ سیکھ لیا ، جب وہ کام سیکھ گیا تو استاد کی طرف سے روزانہ سو ڈیڑھ سو روپے جیب خرچ مل جایا کرتا جو وہ جمع کرتا گیا ، اسی طرح چھ مہینے اور گزار لئے اور جیب خرچی والی رقم بھی جمع ہوگئی جو قریب قریب دس ہزار تھی ، ایک دن اپنے استاد کو گھر دعوت دی ، اچھا کھانا کھلایا اور کام سے اجازت لے لی۔
ابتدا ہوگئی :
اب اس نے تین ہزار کا ایک لکڑی کا ٹیبل اور سٹینڈ بنوایا ، لوہے کی پلیٹیں لیں اور شیٹ سیٹ کی ، رجسٹر لیا ، دو کرسیاں اور ایک پھٹہ خریدا،
کل ملاکر آٹھ ہزار روپے خرچ کئے اور جگہ کی تلاش شروع کی ، بازار کے دوسری طرف اسے ایک دوکان کے کارنر پہ ماہانہ کرایہ پہ جگہ مل گئی اور یہ وہاں ٹیبل سجا کر بیٹھ گیا ، دھیرے دھیرے کام ملنا شروع ہوا اور پھر بڑھتا گیا ، فی پلیٹ خرچ وغیرہ نکال کر سو روپے بچ جاتے ، عام طور پہ پلیٹ کے لئے پیچ الگ سے خریدنا پڑتے ہیں اگر پہلے سے پلیٹ لگی ہو تو وہ بھی لگائے جاسکتے ہیں ، لیکن لگوانے کی مزدوری 30 یا 50 روپے الگ سے لی جاتی ہے ، اختر پہلے پہل صرف پلیٹ بنانے تک محدود رہا بعد ازاں تھوڑا سا ریٹ بڑھا کر اس نے پلیٹ لگا کر دینے کی ڈیلنگ بھی شروع کردی ، اگر پلیٹ بنوائیں تو ڈیڑھ سو روپے اور اگر لگوانے ہے تو ایک سو 80 سے دو سو تک لیتا ۔۔ کبھی کوئی گاہک زیادہ بحث کرنے لگتا تو یہ سارا کام ڈیڑھ سو میں بھی کردیتا ، پھر بھی خرچ نکال کر اسے 90 روپے تک فی پلیٹ بچ جاتے ۔۔ پہلے پہل روزانہ تین چار پلیٹیں آنے لگیں پھر یہ تعداد بڑھتی گئی ، سال بھر تک روزانہ دس پندرہ تک پلیٹس آجائیں ، اس طرح اسے روزانہ کے اسے 1 ہزار روپے بچنے لگے ، ایک مہینہ میں 26 دن کام ہوتا تو ماہانہ کے اخراجات نکال کر اسے بیس ہزار بچ رہے تھے ، وہ ماہانہ 5 ہزار روپے کا سودا سلف لے کر گھر دیتا اور باقی پیسے جمع کرتا جاتا ، تقریباً 15 ہزار روپے ماہانہ وہ محفوظ کرتا رہا اور سال بھر میں 1 لاکھ 80 ہزار روپے جمع کر لئے ، اگلے سال اس نے روزانہ 2 سو روپے کے حساب سے کچھ ممبران کے ساتھ کمیٹی ڈالنا شروع کردی ، جو کہ چھ ہزار کے قریب رقم بن جاتی اور باقی 7 ، 8 ہزار روپے وہ اپنے پاس جمع کرتا رہا ، اس طرح سال بھر میں 1 لاکھ روپے اس کے پاس جمع ہوگئے، اس سے پہلے بھی اس کے اکاؤنٹ میں 1 لاکھ 80 ہزار روپے پڑے تھے اور کمیٹی میں بھی ماہانہ چھ ہزار روپے چل رہے تھے ، کمیٹی کے ٹوٹل 200 ممبران تھے جو سب اسی مارکیٹ کے تھے ، ہر ساتویں دن 2 لاکھ 80 ہزار روپے کی بذریعہ قرعہ اندازی کسی ایک ممبر کی کمیٹی نکالی جاتی ، ایک سال گزر چکا تھا مگر اختر کی کمیٹی نہیں نکلی تھی ، کمیٹی کی انتظامیہ مضبوط اور مستحکم تھی اس لئے ڈانواں ڈول ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا اور سال بھر یہ کمیٹی کامیاب چلتی رہی تھی اور اختر برابر رقم دے رہا تھا ، اور پھر ایک ہفتہ میں بالآخر اختر کا نمبر لگ گیا ، اس دوران وہ اپنے اکاؤنٹ میں 1 لاکھ روپے تک کا مزید اضافہ کر چکا تھا تو 3 لاکھ 80 ہزار روپے اس کے ذاتی تھے اور کمیٹی کی رقم ملا کر 6 لاکھ 60 ہزار روپے اس کے ہاتھ میں تھے ۔۔
نیا موڑ :
زندگی میں ہر انسان آگے بڑھنا چاہتا ہے ، کسی کے پاس پلاننگ نہیں اور کسی کے پاس بچت کا طریقہ نہیں ، کوئی سست روی کا شکار ہے اور کسی کو الجھنوں نے گھیر رکھا ہے ، کسی کی منیجمنٹ کمزور ہے اور کسی کو آوارہ گردی نے پریشان کر رکھا ہے ، کوئی اعتماد کے فقدان کا شکار ہے اور کوئی عیاشیوں میں وقت اور پیسہ برباد کرکے کسی کام کا نہیں رہتا ۔
اختر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا اور دھیرے دھیرے کامیابی کے راستے پہ گامزن رہا اور آج اس کے ہاتھ میں چھ لاکھ 60 ہزار روپے تھے، اس دورانیہ میں دکان داروں سے تعلق بن چکا تھا ، اچھی خاصی واقفیت ہوگئی تھی ، اس لئے اسے دکان پہ کسی اور کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں تھا ، سوچ بچار کے بعد اس کی نظرِ انتخاب سپئر پارٹس کے کام پہ پڑی ، دوکان اس کے کاؤنٹر والی ہی تھی تو اپنے کام پہ بھی توجہ دی جا سکتی تھی ، اس لئے اس نے نمبر پلیٹس کی دکان پہ اپنے چھوٹے بھائی کو سیٹ کیا اور آدھے سے زیادہ وقت وہ بطور سیلزمین سپئر پارٹس کی دوکان پہ دینے لگا ،
بھائی سے شام کو سارا حساب کتاب کر لیتا وہ بھی ساتھ رہ کر اچھا خاصا کام سیکھ چکا تھا ، یہ اسے تین سو روپے روزانہ کا جیب خرچ دیتا اور باقی سات آٹھ سو روپے اپنی جیب میں رکھتا ، پھر بھی 18، 19 ہزار مہینہ کے آجاتے ، حسبِ سابق کمیٹی کے چھ ہزار نکالے جاتے ، پانچ ہزار گھر اور کاؤنٹر کا کرایہ اور پلیٹس کے اخراجات نکال کر اسے ماہانہ 8 ہزار روپے بچ جاتے ، مسلسل دو سال تک سپئر پارٹس کی دوکان پہ کام کیا اور اس دوران دوسری کمیٹی کے دو لاکھ 80 ہزار بھی آگئے۔ اپنے پاس دو لاکھ اور بھی جمع ہوگئے۔ اس طرح کل رقم 9 لاکھ 40 ہزار روپے اس کے پاس تھی ۔۔
ترقی کا سفر شروع ہو گیا :
دو سال کے سپئر پارٹس کے کام کا تجربہ لینے کے بعد اس نے اپنا کام کرنے کی ٹھان لی ، ہول سیلرز سی رابطہ کیا ، بازار میں چلنے والے آئٹمز کی لسٹ بنائی ، اور ریٹس لے کر رکھ لئے ، دکان تلاش کی جاتی رہی اور کچھ مہینوں بعد ایک لاکھ روپے پگڑی اور دس ہزار کرایہ پہ دوکان بھی مل گئی ، پچاس ہزار ڈیکوریشن اور سیٹنگ پہ لگا دئیے اور 5 لاکھ کا سامان لے کر بیٹھ گیا ، آج پورے دو سال ہونے کو آئے اس کا سپئر پارٹس کا بزنس ڈویلپ ہوچکا ہے ، پندرہ لاکھ کی مالیت کا سامان موجود ہے ، روزانہ تین چار ہزار روپے کی بچت کر رہا ہے اور اس کا بھائی اپنے بڑے بھیا کی نگرانی میں اسی ٹریک پہ کام کر رہا ہے۔
اختر نے اپنی دو بہنوں کی شادیاں بھی کی ہیں اور بوڑھے ماں باپ کو سہارا بھی دیا ہے ، اس کا عزم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی معیار کی تعلیم دلوائے گا اور اب وہ یہ اخراجات برداشت کر بھی سکتا ہے۔۔!
" اُف ۔۔۔ خدایا!۔۔۔۔۔۔۔"
ظہور ہونقوں سے میرا منہ تکنے لگا
میں زیر لب مسکرایا
"کیوں بھائی ؟؟"
"مجھے اختر سے ملوا سکتے ہو؟؟"
"جی ہاں کیوں نہیں"
آپ بھی اختر کی طرح میدان میں آجائیے:
میرے بھائی جو بھی کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے ، آج سے دس سال پہلے اختر کے پاس کچھ بھی نہیں تھا مگر آج وہ "اختر سپئر پارٹس سینٹر" کا مالک ہے ۔۔ ظہور بھائی آپ بھی ایک ایسا آئیڈیا لیجئے اور اس پہ خود کو کھپا دیجئے۔ ترقی ضرور ہو گی مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ وقت لگے گا ۔۔!!
۔
عبداللہ بن زبیر
0 comments:
Post a Comment