( اھل علم کے دلوں کو جھنجوڑ دینے والی تحریر )

ملاحظہ فرمائیں
👇👇👇👇👇👇👇👇👇

اللہ اس قوم پر رحم کرے جس قوم کا نوجوان اور سنجیدہ طبقہ لہو لعب میں گم ہو اور انہیں کل کی فکر ہی نہ ہو۔

یہ مضمون دلت وائس، -31 مئی، 1999 ، میں شائع ہوا تھا جس میں معروف صحافی وی ٹی راج شیکھر نے لکھا تھا: ’’ اس وقت تو محض بیج بوئے جا رھے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آناھے۔ اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وھی ہوگا جو اسپین میں ہوچکاھے‘‘

مسلمانوں نے اسپین پر ہزار سال تک حکومت کی ۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمانوں کا وجود نہیں ھے۔ حالانکہ وہاں تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلام کے اثرات ہیں ۔ اسپین کی زبان میں دیگر یوروپی زبانوں کی بنسبت عربی کے زیادہ الفاظ موجود ہیں، اس کی موسیقی پر عرب موسیقی کا اثرھے، اس کی ثقافت پر یوروپین تہذیب کے بجائے عرب ثقافت کی چھاپ ھے اور یہاں تک کے کہ عرب ناموں کی طرح یہاں ناموں کے شروع میں ’’ال‘‘ لگا ہوتاھے ۔ 1942 سے، جب غرناطہ میں مسلم سیاست کا آخری قلعہ مسمار ہوا تھا، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی شروعات ہو گئی تھی اور 120 سال بعد 1612 میں یہ زوال یہاں سے با عمل مسلمانوں کے آخری قافلے کی روانگی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس سال کے بعد اسپین کے افق سے اسلام بالکل غائب ہو گیا۔

ایک قابل غورنکتہ یہ ھے کہ اسپین میں اسلام کی تنزلی کے اُس دور میں پوری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ ترکی کی عثمانی خلافت قسطنطنیہ پر 1553 میں قبضہ کر چکی تھی اورجزیرہ نما بلقان کاتمام علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ مصرمیں طاقت ور مملوک حاکم تھے۔ عباسیوں کے زیر حکمرانی ایران اپنے عروج پر تھا اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اسپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ان عظیم افواج نے کچھ نہ کیا۔ اسپین میں اسلام کا خاتمہ کیسے ہوا؟ اس صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو فسطائیوں نے اس موضوع میں گہری دلچسپی لی تھی ۔ انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سےکیا تھا تاکہ ہندوستان میں اس کی نقل کی جاسکے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسپین کی کہانی دوہرائے جانے کو روکنے کیلئے مسلمانوں نےاپنے طور پر اس کا مطالعہ کیا تھا کیونکہ سب سے بڑی اقلیت ہونے کی وجہ سے(1981 کی مردم شماری کے مطابق ان کاتناسب 11.35 ھے) وہ اعلیٰ ذات کے ہندؤں کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئے ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اسپین کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تیار کی جانے والی سازشوں سے لا علم ہیں ۔

 ہندوستان کی طرح اسپین کے مسلمانوں کی بھی تین اقسام تھیں: (1)اصل عربوں کی اولادیں (2) عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی اولادیں (3) جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔ سقوط غرناطہ کے بعد اپنی جانیں (دولت نہیں کیونکہ دولت لیجانے کی اجازت نہیں تھی) بچانے کیلئے اصل عرب تیونس اور مراکش چلے گئے۔ بہت سے عیسائی حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ عرب جنہوں نے اسپین میں رہنے کو ترجیح دی انہیں بالآخر ’’غیر ملکی‘‘اور اسپین کو برباد کرنے والے قرار دے دیا گیاِ، جیسا کہ ہندوستان میں کیا جارہاھے )۔ دیگر مسلمان یعنی مسلمان باپوں اور عیسائی ماؤں کی اولادیں یا عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں نے مکمل مذہبی آزادی دئے جانے کے شاہ فرنیڈانڈ کے اعلان پر یقین کرتے ہوئے اسپین میں رہتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندوستان میں بھی تو ہمیں یہ ھی بتایا جاتاھے کہ مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق حاصل ہیں)۔ شروع کے سالوں میں ان کی زندگی اور املاک پر حملوں کو عارضی رویہ قرار دے کر معاف کردیا جاتا تھا۔

اس کا موازنہ 1947 میں تقسیم کے حالات سے کیجئے۔ (یہ مضمون 1999 میں لکھا گیا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملوں اور قاتلوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا موازنہ گجرات، مظفر نگراور مالیگاؤں میں مسلمانوں کے قاتلوں کی یکے بعد دیگرے رہائی اور حکومت وقت کے ذریعے انہیں نوازے جانے سے کیجئے — مترجم)۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملے محض اُسی وقت شروع نہیں ہوئے بلکہ 50 سال بعد تک اس سے کم شدت کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رھے۔ بالکل جس طرح آج ہندوستان میں ہو رہاھے۔ تقسیم کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے مزاحمت دکھائی اور حملہ آوروں کو جواب دیا ۔ سڑکوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں مگر آہستہ آہستہ یہ یک طرفہ حملوں میں بدل گئیں اور شکست مسلمانوں کی ہوئی۔ اور اب تو ہندو پولیس کو مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ھے ۔

اسپین میں جس وقت منظم عیسائی گروپ قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے تھےِ، فرنیڈانڈ کی حکومت مسلمانوں کا نوکریوں سے صفایا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل پیرا تھی:

• انتظامیہ سے عربی زبان کو خارج کردیا گیا۔ جو اسکول مساجد سے منسلک تھے ان پر پابندی لگادی گئی کہ غیر مذہبی مضامین، مثلاً سائنس، تاریخ، ریاضی، اور فلسفہ نہ پڑھائیں۔ وہ صرف مذہبی تعلیم دے سکتے تھے۔

• تاریخ کی تعلیم جھوٹے واقعات کی بنیاد پر دی جانے لگی جس میں مسلمان دور حکومت ظلم اور صفاکی کا دور بتایا گیا۔ اسپین کی تعمیر میں مسلمانوں کےکردار کویکسر نظر انداز کردیا گیا۔

• ہتھیار جمع کرنے اور خفیہ میٹنگوں کے انعقاد کے الزام کے بہانے مسلمانوں کے گھروں کی آئے دن تلاشی ہوتی تھی ۔

• نسلً اصلی عربوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا تھا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور یہ کہ انھوں نے اسپین کو تباہ کیاھے ۔

• جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو یہ کہہ کر دوبارہ عیسائی بننے کی ترغیب دی گئی کہ ان کے اجداد کو زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا اور اب کیونکہ کوئی دباؤ موجود نہیں رہا، لہٰذا انہیں عیسائیت اختیار کر لینی چاہئے۔

• جن مسلمانوں کے اجداد عیسائی اور مسلمان تھے انہیں حرامی قراردیا جاتا، ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر عیسائیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔

• اسلامی طریقے سے ہونے والی شادیوں کا عدالت میں جا کر رجسٹریشن کروانا لازمی کردیا گیا اوراسلامی قوانین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

اسپین میں اختیار کیا گیا ہر طریقہ اِس وقت ہندوستان میں نہایت ہوشیاری اورمنظم طریقے کے ساتھ آزمایا جارہاھے۔

اسپین میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تذلیل کی گئی اوران پر مسلسل حملے کئے جاتےرھے ۔ مسلمانوں کی معیشت برباد کرنے کیلئے ان کی دوکانوں اور مکانوں کو نطرآتش کرنے کیلئے اسپین کے لوگوں کو ترغیب دی گئی ۔ مسلمانوں کے عیسائیت قبول کرنے کی علامتی تقریبات منعقد کر کے ان کی تشیہر کی گئی۔ ہندوستان میں ہر طرح کے ہندونازی— آریہ سماج، راما کرشنا مشن، وشوا ہندو پریشد وغیرہ — بالکل یہی کام انجام دےرھے ہیں ۔ اسپین کے مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے اپنے بچوں کو گھروں اور مساجد میں عربی پڑھاکر اور زبانی طور پر انہیں حقیقت سے روشناس کروا کر اپنے مذہب کی حفاظت کا غیر فعال طریقہ اختیار کیا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کا جذبہ سرد پڑتا گیا۔ جب یہ حکم نافذ ہوا کہ شادی صرف سرکاری اداروں کے ذریعےھی کی جا سکے گی توشروع شروع میں مسلمان دو تقریبات منعقد کرتےرھے۔ ایک سرکاری ادارے میں اور دوسری اپنے گھروں پراسلامی طریقے سے۔ آہستہ آہستہ دوسری تقریب پر پابندی عائد کردی گئی اورگھروں میں منعقد کی جانے والی یہ تقاریب بھی غائب ہو گئیں۔

اس دوران مسلم قیادت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ ختم ہو گیا اورمسلم اشرافیہ نے بڑی تعداد میں ترکی، تیونس، مراکش اورمصرکی جانب ہجرت کرلی جہاں جذبہ ہمدردی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اسپین کے غریب مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ بالکل یہی سب کچھ ہندوستان میں ہورہاھے ۔ امیراور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان برہمنی اثرقبول کرتا جاررہاھے۔ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی نقالی شروع کردی ھے کیونکہ وہ غریب مسلمان (جو 95% ہیں) بد حال بستیوں میں رہتے ہیں اور مراعت یافتہ طبقے کی بنسبت وہ اسلام پرزیادہ عمل کرتے ہیں۔ مسلم کش فسادات میں انہیں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔

اسپین میں جو بیج نصف صدی کے پہلے حصے میں بوئے گئے تھے، نصف صدی کے بعد ان کی فصل پوری طرح پک کر تیار ہو گئی تھی۔ اب مسلمانوں کی حفاظت کرنے کیلئے نہ کوئی قیادت باقی رہ گئی تھی اور نہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی با بصیرت شخصیت رہ گئی تھی۔ مذہبی قائدین، جنہیں دینیات کے علاوہ کسی اور چیز کا علم نہیں تھا، نے صورتحال سے نمٹنے کی بھر پور کوشش کی مگرحکومتی اداروں کے پروپیگنڈے، اس کی جانب سے دیا گیا لالچ ،عیسائیت قبول کرنے کے عوض بڑی بڑی پیشکشوں، اسلامی اقدار سے عوام کی ناواقفیت، اوران کے ذہنوں میں منظم طریقے سے پیدا کی گئی احساس کمتری کے سامنے علماء کی کوششیں بہت کمزور تھیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت اور ایسی تنظیموں کی ضرورت تھی جن کے پاس حالات سے نمٹنے کیلئے وسا ئل دستیاب ہوں۔ جن مسلمانوں نے ترکی اور مصرکی مسلم حکومتوں سے مدد لینے کی بات کی مسلمانوں نے خود ان کی مخبری حکومت سے کی۔ مسلمانوں میں لڑنے کی خواہش کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی مسلم ملک ان کی مدد نہ کر سکا۔ جو مسلمان ترکی اور مصر میں ہجرت کر چکے تھے اُنہوں نے اِن حکومتوں کو اسپین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا خیال دل سے نکالنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کی سوچ کے مطابق اِس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں مزید شدت آجاتی۔ اُنہیں ایک احمد شاہ عبدالی کی ضرورت تھی مگر اس کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ عام مسلمان اسپین کے قومی دھارے میں شامل ہو گئے اور بیروزگار ہوجانے کی وجہ سے ملّا اسپین چھوڑ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن مسلمانوں کواعتقاد کے لحاذ سے سخت سمجھا جاتا تھا ان کا آخری قافلہ اسپین کو الوداع کہہ کر 1612 میں وہاں سے روانہ ہوگیا ۔

ہندوستان میں بھی سیاسی قیادت اُن پارٹیوں کی دم چھلّا بن گئی جن کی قیادت اعلیٰ ذات کے ہندؤں کے ہاتھ میں ھے ۔ صرف عالم دین مولانا ابولحسن ندوی نے ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی ھے ۔

ہندوستان میں ’’تجربہ اسپین‘‘ پوری توانائی اور فعالیت کے ساتھ اپنایا جا رہاھے ۔ اردو زبان، جو ہندوستان میں اُتنی ھی اسلامی ھے جتنا اسپین میں عربی اسلامی تھی، کو ختم کیا جارہاھے ۔ اِس صورتحال کا مشاہدہ ہم نے بنگلور میں ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں کیا۔ (دلت وائس 15 مارچ 1985 )۔ یہ لوگ عوام میں پہنچنے کے بجائے نفسیاتی اور جسمانی گوشہ نشینی کا سہارا لےرھے ہیں۔ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی غرض سے اٹھائےجانے والے کسی بھی قدم کو فرقہ واریت کا نام دے دیا جاتاھے ۔ کوئی مسلمان اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی تائید نہ بھی کر رہا ہو بلکہ ان کی محبت کا ڈھونگ کر رہا ہو تو اسے ’’نیشنلسٹ مسلم‘‘ سمجھا جاتاھے ۔ مسلم عوام اور تعلیم یافتہ امیرمسلمانوں کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہاھے۔ مسلمان قیادت خود بھی مسلمانوں کے قتل عام کو فطری بات سمجھتی ھے۔ جب کبھی بھی اس قسم کے مسا ئل کوبین الاقوامی اسلامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا جاتاھے تو اسے ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ھے۔ تعلیمی نصاب سے مسلم تاریخ خارج کردی گئی۔ نامورمسلمان جن کی اموات ہندوستان میں اور ہندوستان کیلئے ہوئیں ان کے نام لینے سے گریز کیا جاتا ھے۔ ٹیپو سلطان جس کی شہادت ہندوستان کیلئے ہوئی نئی نسل اُس تک کے نام سے نا آشناھے۔ اِس کے برعکس تاتیا ٹوپے، جس نے ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ اپنی پینشن کیلئے جنگ کی تھی اور جھانسی لکشمی بائی جو اپنے سوتیلے بیٹے کو اپنے تخت کا وارث بنانے کیلئے لڑی تھی، ان کے نام ہرہندوستانی کے لبوں پر ہیں۔ سائنس، طب، موسیقی، آرٹ کی خدمت یا بہادری کیلئے کسی مسلمان کو انعام نہیں دیا جاتا۔ انتہا تو یہ ھے کہ مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیروغیرہ جنہوں نے حکمراں پارٹی کانگریس کے پرچم تلے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی، ان کے ناموں پر کسی سڑک کا نام نہیں رکھا جاتا۔ تاریخ دوبارہ لکھی جارھی ھے (Falsifying Indian History یعنی “تاریخ ہند کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کا عمل” دلت وائس 16 اپریل 1985 ) مسلمانوں کو روزانہ مارا جارہاھے اور ان کے مکان اور املاک جلائے جارھے ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے دروازے ان کیلئے بند ہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی حفاظت کی خاطرمسلم تنظیمیں خود رو گھاس کی طرح وجود میں آتی چلی جارھی ہیں ۔ ہر کوئی اسلام کی حفاظت کیلئے فکرمندھے ، کوئی بھی مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرنا چاہتا۔ ہم اس بارے میں واقعی فکرمند ہیں ۔

حکمراں طبقے کی پالیسیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ھے کہ اِس میں اور اسپین میں فرڈنانڈ اور ازابیل کی پالیسیوں میں بہت زیادہ مماثلت ھے۔ فرق صرف اتناھے کہ بیسوی صدی میں اقوام متحدہ کے منشوربرائے انسانی حقوق اور بین الاقوامی رائے عامہ کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے ہندو زیادہ تیزاورمکاری میں زیادہ سلیقہ مند ہیں۔

آئے دن کے منظم مسلم کش فسادات میں جانی اورمالی نقصان، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت، دفاع، افواج اور پولیس میں مسلمانوں کا صفایا کر کے ان شعبوں میں برہمنی سوچ کا فروغ دیا جانا، سرکاری نوکریوں اور اداروں میں تقرری کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کردینا، تعلیم اور ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ میں برہمنی سوچ کا پھیلادیا جانا، 1947-48 میں، پنجاب، ہریانہ، یوپی، بہاراور مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، اور کرناٹک کے کچھ علاقوں سے اردو زبان کا خاتمہ، آہستہ آہستہ اردواسکولوں کا بند کیا جانا، یہ سب مسلم دشمن پالیسیوں کی واضح مثالیں ہیں ۔

نفسیاتی جنگ کے محاذ پرمسلم پرسنل لاء ، جسے اب یکساں سول کوڈ کا نام دے کر اسے تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی ھے ، ہندو ثقافت کی بڑائی کا شور، ملک کی ترقی اور تعمیر میں مسلمانوں کی خدمات کو کم کرکے دکھانے کیلئے بدنام زمانہ مسلم دشمن شخصیات مثلاً ’’مہاتما‘‘ گاندھی، جی بی تلک، مدن موہن مالویہ، ویر ساورکر، لالا لاجپت رائے کو بطور ہیرو پیش کرنا، ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھنا، جو کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں مثلاً گوشت کا کاروبار، اسے گناہ بتا کر گائے کی حفاظت کی پالیسیوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو اسمگلنگ سے تعبیر کرنا، یہ وہ حرکتیں ہیں جن سے ہندوستان کے سادہ لو عوام کو گمراہ کیا جاتاھے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ھے ۔ مسلم اکثریتی حلقہ انتخاب کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا جاتاھے تاکہ مسلمانوں کے ووٹ بے وزن ہو جائیں اور ان علاقوں پرایسے انتہا پسند سیکولر مسلم لیڈروں کو مسلط کردیا جاتاھے جنہوں نے اب گائے کی پرستش شروع کردی ھے اوران مناظر کو باقاعدہ ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتاھے۔ بد قسمتی سے حکومت سے ناامید مسلم قائدین ہندؤں پر مزید انحصار کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہندو (دلت) عوام اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ اس وقت تو محض بیج بوئے جارھے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آناھے۔ اور فصل کاٹے جانے کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وھی ہوگا جو اسپین میں ہوچکاھے الا یہ کہ مسلمان جلدی سے جوابی اقدامات کی تیاری کرلیں ۔

یہی وقت ھے جب مسلمان یا ان میں دانشمند حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دوہرائے جانے کو روک دیں۔ اسلام کی حفاظت ہمیشہ عوام نے کی ھے نہ کہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے۔ دولت مند مسلمانوں کا تناسب (کچھ استشناؤں کے علاوہ) پانچ فی صد بھی نہیں ھے جو استحصال کرنے والے اعلیٰ ذات والوں کے ساتھ شامل ہو رھے ہیں۔ ہو سکتاھے یہ طبقہ اسلام کی باتیں کرتا ہو مگر مسلمانوں کو بھول چکاھے۔ برائے مہربانی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مذہب اپنے ماننے والوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ مذہب کے ماننے والے مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان میں اسلام کو بچانے کیلئے مسلمانوں کو بچانا پڑے گا۔ہمارے اکابرین نے اپنے اپنے جان و مال کا نظرانہ دے کر جو قربانی دی اس کا پھل ہم‌نے کھایا اب پھل ختم ہو چکا ہے۔اب جب ہم قربانی دےگیں تو ہماری نسلیں اس کا پھل کھاۓ گی۔ہم صرف دو کام کرے پہلا رجوع الی اللہ اور غیر مسلموں کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے  حقوق کی لڑائ۔ان کو بتاۓ کہ ہم دیوار ہیں ان کی راہوں میں ہمیں سر کر کے یہ آپ کو کچلے گے۔واضح رہے کہ دلتوں کا پڑھا لکھا طبقہ اس بات کو جانتا ہے

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment