پوچھنے لگے کرب کی کیفیت میں انسان کیسے محسوس کرتا ہے۔ ۔
الفاظ میں بتانا آسان تھوڑی ہے۔۔ جب روشنی اندھیری نظر آئے۔ ہر خوشی نا مانوس سی لگنے لگے۔ جب مسکراہٹ نم آلود، ہنسی غم آلود ہو جائے۔ یہ کرب ہے۔
جب کروٹ کروٹ رات کے سارے پہر آنکھوں میں کٹ جاتے ہوں۔ جب آنسو پلکوں کے کنارے ہی کہیں رکھے ہوں، لیکن بہنے کا رستہ نہ پائیں۔ جب پسندیدہ ترین کاموں میں دل نہ لگے۔ کچھ بھی - کوئی بھی اچھا نہ لگے۔ یہ کرب ہے۔۔۔
جب چاردیواری کے سب دروازے بند ہوں اور چابی کھو جائے۔ جب کھڑکیاں روشنی اور ہوا دینے سے قاصر ہوں۔ جب سیلن کی بو اور گھٹن رگ و پے میں اتر جائے۔ آپ روشنی کی ایک کرن کو ترستے ہوں اور زنداں کا آخری روشندان بھی آپ پر بند کر دیا جائے۔ یہ کرب ہے۔
جب سفر طویل اور راستہ پتھریلا ہو۔ منزل کا نام نشان نہیں اور ہمسفر ہاتھ چھوڑ جائے۔ یہ کرب ہے۔
جب دل پر ایک سِل اس طور دھری رہےکہ سانس لینا دوبھر ہو جائے۔ جب ایک ٹیس مسلسل روح میں چٹکی لیتی ہو۔۔ جب سب کچھ ہوتے ہوئے کچھ نہ ہو۔ بس ایک خلا۔ بس ایک ادھورا پن۔۔ آپ جذباتی طور پر ایسے مضمحل ہو جائیں کہ آپکا جسم آپکا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو جائے۔ سوچیں کبھی سیلاب کی طرح آپکو بہا لیں جائیں، کبھی قحط سالی کی طرح بنجر ویران چھوڑ جائیں۔ یہ کرب ہے۔
جب ایک ڈراؤنے خواب میں آپ خود کو بارہا مرتا دیکھیں اور ہر بار خود کو بچا نہ پائیں۔ یہ کرب ہے۔
پوچھتے ہیں کرب کی کیفیت کو بیان کریں۔ الفاظ میں بتانا آسان تھوڑی ہے۔۔۔
نیر تاباں
0 comments:
Post a Comment