بزرگ سنایا کرتے تھے کہ:
ایک شخص گھر آیا تو اس کی بیوی نےکہا: ہمارے غسل خانے کے پاس جو درخت ہے اسے کٹوا دو ، میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ جب غسل کررہی ہوں تو پرندوں کی نظر مجھ پر پڑے ۔
وہ بیوی کی اس بات سے بہت متاثر ہوا اور اس نے درخت کاٹ دیا ۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن وہ خلافِ معمول اچانک گھر آیا تو دیکھا بیوی ایک غیر مرد کے ساتھ مشغول تھی ۔
اسے اتنا دُکھ ہوا کہ گھربار چھوڑ کر بغداد چلاگیا ۔
بغداد میں کاروبار شروع کرلیا ، اور کسی طریقے بغداد کے والی تک رسائی بھی حاصل کرلی ۔
کچھ دن گزرے تھے کہ اچانک والی کے گھرچوری ہوگئی ۔
پولیس نے مجرم پکڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔
اس نے دیکھا کہ ایک شیخ والی کے پاس آتے ہیں تو والی ان کی بے حد تعظیم کرتا ہے ۔
لیکن ایک بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ شیخ آدھے پاؤں پرچلتے ہیں ، پورا پاؤں زمین پر کیوں نہیں رکھتے ۔
اس نے کسی سے وجہ پوچھی تو بتایا گیا:
یہ پورا پاؤں زمین پر اس لیے نہیں رکھتے کہ کہیں کیڑے مکوڑے نہ کُچلے جائیں ۔
اُس نےوالی سے کہا:
جان کی امان ہو تو عرض ہے ، آپ کی چوری اِسی شیخ نے کی ہے ۔
جب تحقیق کی گئی تو مَسرُوقہ مال اُسی شیخ سے برآمد ہوا ۔
والی کہنے لگا:
ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ شیخ اس طرح کرسکتے ہیں ۔ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟
اس نے کہا: میرے گھر میں ایک درخت تھا ، جس نے مجھے نصیحت کی تھی:
” جو لوگ ضرورت سے زیادہ ” نیک نظرآنے “ کی کوشش کرتے ہیں ، وہ عموماً نیک نہیں ہوتے ۔ “
نصیرالدین نصیر نے سچ کہاتھا ؎
اے شیخ! یہ زُہدِ خود نُما کچھ بھی نہیں
یہ مَکر ، یہ شیوۀ رِیا کچھ بھی نہیں
دانوں کاگُھماؤ زیادہ ، کم جُنبشِ لب
تسبیح میں چکر کے سوا کچھ بھی نہیں
زُہد و تَقویٰ ضرور اختیار کریں ، لیکن لوگوں کے لیے نہیں ، اپنے رب کے لیے!!
پرہیز گاری وہی ہے جو رسولِ پاک ﷺ کی اتباع میں ہو ، باقی سب خوامخواہ کا تَکلُف ہے ۔
0 comments:
Post a Comment