وفا (مکمل)


تحریر : محمد اقبال شمس
اکرم کی رات کے ایک پہر اچانک آنکھ کھلی اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی نائیلہ بستر سے غائب تھی۔۔ اس نے سوچا باتھ روم میں ہوگی پر باتھ روم کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔وہ اس میں بھی نہیں تھی ۔۔ اسے تشویش ہوئی اس نے اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور کمرے سے باہر کی طرف نکلا۔۔ اسے ایک طرف سایہ نظر آیا وہ دبے قدموں سے اس طرف بڑھا۔۔پھر اچانک وہ رکا۔۔اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی موبائیل پر کسی سے بات کررہی ہے۔۔آدھی رات کو آخر یہ کس سے بات کررہی ہے۔۔اس نے خود سے سوال کیا۔۔وہ اس کے قریب گیا کچھ دیر وہ وہاں رکا اور پھر واپس وہ اپنے کمرے میں آکر اپنے بستر پر ڈھیر ہوگیا۔۔تھوڑی دیر بعد نہایت آرام سے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی۔۔اکرم نے فوراً اپنی آنکھیں بند کرلی جیسے کہ وہ سو رہا ہوں۔۔نائیلہ آرام سے بستر پر چڑھی اور ایک طرف کروٹ کر کے لیٹ گئی۔۔جبکہ اکرم کسی گہری سوچوں میں گم ہوگیا۔۔
نائیلہ اکرم کی پھوپھی زاد تھی۔۔ان کے والدین نے بڑی چاہ سے دونوں کا رشتہ طے کیا تھا۔۔بلکہ اکرم کے والد ماجد صاحب نے بچپن میں ہی نائیلہ کا رشتہ مانگ لیا تھا اس طرح نائیلہ بچپن سے ہی اکرم کے نام ہوچکی تھی۔۔ دونوں نے جب ہوش سنبھالا تو دونوں کے ذہن میں یہ بات ڈال تھی کہ اکرم نائیلہ کا دولہا اور نائیلہ اکرم کی دلہن ہے۔۔کبھی کبھی تو نائیلہ اس بات سے چڑ بھی جاتی۔۔پر اس کا بچپنہ دیکھ کر اسْ کی اسِ بات کو مذاق کے طور پر لیا جاتا۔۔پر وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات مذاق والی نہیں رہی تھی نائیلہ کو اکرم واقعی نا پسند تھا۔۔وجہ کوئی خاص نہیں تھی ۔۔ شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی تھی کہ بچپن سے اس کے ذہن میں اکرم کو مسلط کردیا تھا شاید اسی بات سے اسے چڑ ہو اور یہ چڑ ناپسندیدگی کا باعث بن گئی۔۔
وقت گزرتا گیا اور دونوں جوانی کی دہلیز عبور کرگئے۔۔نائیلہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا میٹرک میں اچھی پوزیشن آنے کے بعد اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔۔کالج میں اس کی ملاقات رمیز سے ہوئی۔۔ہیلو ہائے کے بعد قربتیں بڑھی اور دونوں میں دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا۔۔جبکہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔۔نائیلہ یہ بات جانتی تھی کہ وہ کسی کے ساتھ منسوب ہوچکی ہے۔۔پر اس کے باوجود رمیز کو اس نے اپنے دل میں جگہہ دے دی۔۔
**********************
"رمیز مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے" ایک دن نائیلہ نے اس سے کہا۔۔وہ بولا۔۔"لو! روز تو بات کرتی ہوں آج کوئی خاص بات کرنی ہے؟" دراصل رمیز! مجھے تم کو یہ بات بتانی ہے کہ میں بچپن سے اپنے کزن کے ساتھ منسوب ہوچکی ہوں" رمیز بولا "منسوب ہوچکی ہو کوئی شادی تو نہیں ہوئی۔۔منگنیاں تو ٹوٹ بھی جاتی ہیں تم اپنے گھر والوں کو انکار کردو کہ تم شادی نہیں کرسکتی۔۔تم مجھے پسند کرتی ہو اور مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہوں" "رمیز! یہ سب کہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ پھر بھی میں کوشش کرتی ہوں میں امی سے بات کرتی ہوں" "کوشش نہیں بس عمل کرگزرو، اگر وقت پر نہیں بولی تو پھر ہاتھ ملتے رہ جائینگے ۔۔" "ٹھیک ہے میں امی سے آج ہی بات کرتی ہوں" "یہ ہوئی ناں بات۔۔چلو کینٹین میں چل کر اچھی سی چائے پیتے ہیں" "نہیں میں کولڈ ڈرنگ پیونگی" نائیلہ مسکراتے ہوئے بولی "ٹھیک ہے جو آپ کا دل چاہے۔۔" رمیز نے مسکرا کر کہا اور پھر دونوں کینٹین کی طرف چل دئے۔۔
****************************
نائیلہ کی یہ بات سن کر اس کی امی غصے میں آگئی۔۔وہ بولی " نائیلہ! تم ہوش میں تو ہو۔۔یہ بات تم نے سوچی تو کیسے سوچی تمھیں اس بات کا بلکل خیال نہیں کہ تمھاری ماں اپنے بھائی کو زبان دے چکی ہیں اور غیرت مند لوگ مرجاتے ہیں پر اپنی بات سے نہیں پھرتے۔۔" "تو امی آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی اپنی خواہش کا گلہ گھونٹ دے۔۔کیا میری زندگی پر میرا ہی اختیار نہیں۔۔میں ساری زندگی اس شخص کے ساتھ گزار دوں جسے میں پسند ہی نہیں کرتی" "دیکھو بیٹا! اکرم ہمارا دیکھا بھالا لڑکا ہے شکل صورت کا بھی اچھا ہے اور اس میں کوئی عیب بھی نہیں ہے وہ تمھیں خوش رکھے گا" "آپ کی بات ٹھیک ہے امی۔۔پر میں رمیز کو ہی اپنی زندگی کا ساتھی بنانا چاہتی ہوں" "ٹھیک ہے تم اسے اپنی زندگی کا ساتھی بنالو پر میری زندگی ختم ہونے کے بعد، کیونکہ میری زندگی میں یہ ممکن نہیں" یہ کہہ کر اس کی امی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔جبکہ نائیلہ گم صم خلاؤں کو گھورنے لگی۔۔
***************************
"کیا! تمھاری امی کسی طور پر بھی نہیں مان رہی۔۔دیکھو نائیلہ اگر تم مجھے نہیں ملی تو میں مرجاؤنگا" "مرے تمھارے دشمن۔۔" نائیلہ نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔۔"دیکھو رمیز ایسی باتیں مت کرو۔۔میں بھی تمھارے بعغیر زندگی گزرانے کانہیں سوچ سکتی۔۔" تو پھر ٹھیک ہے ہمیں ابھی ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔۔" "وہ کیا" نائیلہ بولی۔۔رمیز بولا۔۔ہم بھاگ کر شادی کرلیتے ہیں۔۔" "کیا! یہ کیا کہہ رہے ہو رمیز؟" "ہاں! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ تم سوچ لو۔۔میں تمھارے جواب کا انتظار کرونگا" یہ سن کر نائیلہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی
***************************
رات نائیلہ نے جیسے کانٹوں پر گزاری۔۔اسے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا فیصلہ کرنا تھا۔۔۔ ایک طرف اس کی والدہ کی خواہش تھی۔۔دوسری طرف اس کی زندگی۔۔ایک راستہ اس کے اپنوں کی خواہشات اور ارمانوں کی طرف کو جاتا تھا۔۔جبکہ دوسرا راستہ اس کی زندگی اور اپنی خوشیوں کی طرف ۔۔۔ وہ کس راستے پر جائے یہ فیصلہ کرنا اس کے لئے بہت مشکل تھا۔۔پر کسی ایک راستے کا انتخاب تو بہرحال اسے کرنا تھا۔۔رات گزر چکی تھی اور فیصلہ آخر اس نے کرہی لیا تھا۔۔
*********************************
نائیلہ نے گھر سے بھاگ کر رمیز سے شادی کا فیصلہ آخر کر ہی لیا۔۔اسے صرف اپنی خوشیاں عزیز تھی۔۔اسے اپنے والدین کی عزتوں کی زرا بھی پرواہ نہیں تھی۔۔اگر پرواہ ہوتی تو وہ یہ اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتی۔۔کسی غیر کی محبت میں لوگ آخر اپنوں کی چاہتوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔۔اپنی خوشی کی خاطر اپنوں کو دکھ کیوں دے جاتے ہیں۔۔
رمیز نے اسے چند ضروری چیزیں رکھنے کا کہا ۔۔اور رات کو تیار رہنے کا کہا۔۔آخر وہ رات آپہنچی ۔۔ کار کے مخصوص ہارن پر اس نے اپنا بیگ اٹھایا۔۔اس کے گھر والے سو رہے تھے اس نے نہایت احتیاط سے دروازہ کھولا۔۔گھر سے قدم باہر نکالتے وقت اس کے قدم لرزے ضرور پر اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔۔ وہ لرزتے قدموں کے ساتھ گھر کی دہلیز عبور کرچکی تھی۔۔سامنے کار کھڑی ہوئی تھی کار سے رمیز نے اسے اشارہ کیا اور کار کا دروازہ کھول دیا۔۔ وہ فوراً کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی۔۔رمیز بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر رمیز کا کوئی دوست تھا۔۔۔رمیز بولا۔ " نائیلہ! یہ میرا دوست ہے جو ہمیں یہاں سے نکالنے میں ہماری مدد کررہا ہے۔۔نائیلہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔پھر کار فراٹے بھرتی ہوئی چل دی۔۔" گھر والوں کو کسی قسم کا شک تو نہیں ہوا۔۔" رمیز نے پوچھا۔۔وہ بولی۔۔ " نہیں سب سورہے تھے " " چلو یہ تو اچھا ہوگیا۔۔ اب ہم اپنی نئی زندگی کا آغاز کرئیں گے۔۔ میں نے رہنے کا بھی بندوبست کرلیا ہے۔ اور ہم فوراً نکاح کرلیں گے۔۔گھر والوں کا کیا ہے پہلے وہ ناراضگی کا اظہار کرئیں گے۔۔پھر رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہوجائے گا اور وہ ہمیں معاف کردیں گے۔۔" "جی" نائیلہ بولی۔۔ کار فراٹے بھرتی ہوئی جارہی تھی جبکہ کار میں ایک خاموشی تھی۔۔چلتے چلتے اچانک کار کو بریک لگا۔۔"کیا ہوا؟" رمیز نے اپنے دوست سے پوچھا۔۔وہ بولا۔۔۔"یار! پولیس کا ناکہ لگا ہوا ہے چیکنگ ہورہی ہے۔۔" "اب کیا ہوگا؟ نائیلہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔"ارے کچھ نہیں ہوگا۔۔وہ تو بس ایسے ہی ایک نظر کار میں جھانکے گی اور جانے دے گی ہم کوئی چور لوٹیرے تھوڑی ہے جو وہ ہمیں پکڑے گی۔۔تم اطمینان سے بیٹھی رہو۔۔" رمیز بولا۔۔اسی دوران دو پولیس والے آئے۔۔انھوں نے کار میں جھانکا۔۔ پھر ایک بولا۔۔ٹھیک ہے جاؤ۔۔" کار جیسے ہی آگے بڑھتی اچانک دوسرا پولیس والا چیخا۔۔"ٹہرو! گاڑی روکو" "کیا ہوگیا بادشاہو" رمیز بولا۔۔وہ بولا "یہ لڑکی کو لے کر کہاں جارہے ہو۔۔" رمیز بولا: "جناب! یہ میری بیوی ہے اور ایمرجنسی میں ہمیں کہی جانا پڑ رہا ہے" ۔۔ "جھوٹ مت بولو۔۔ میری ساری زندگی پولیس میں گزر گئی ہے اور میں ایک نظر دیکھ کر ہی پہچان لیتا ہوں کون بیوی ہے کون محبوبہ ہے۔۔اس لڑکی کا چہرہ صاف بتا رہا ہے کہ یہ تمھارے ساتھ بھاگ رہی ہے۔۔جبکہ اس کےگود میں رکھا ہوا بیگ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے۔۔" دیکھے جناب آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔ایسی کوئی بات نہیں۔۔" رمیز بولا۔۔"کار سے فوراً نیچے اترو۔۔۔" وہ چیخا۔۔وہ سب نیچے اترے۔۔۔"مراد! ان سب کو موبائیل میں بٹھا کر تھانے لے چلو وہاں سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔۔" نائیلہ نے یہ سنا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ رمیز نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور اس کی مٹھی میں دیتے ہوئے بولا۔۔"سر جی! یہ معاملہ یہی ختم کردیں۔۔" ایک زور دار تھپڑ رمیز کے گال پر پڑا۔۔وہ بولا۔۔" ہر پولیس والا بکاؤ نہیں ہوتا میں نے ساری زندگی رشوت نہیں لی اب اپنی ریٹائیرمنٹ کے قریب رشوت لونگا۔" رمیز اپنا گال سہلاتا رہ گیا۔۔پھر وہ نائیلہ سے مخاطب ہوا۔۔"بی بی تمھیں اپنی اور اپنے گھر والوں کی زرا بھی پرواہ نہیں ایک غیر کی خاطر اپنوں کو دھوکا دے کر کبھی زندگی بھر خوش نہیں رہ سکتی۔۔میری ایک زندگی گزر گئی پولیس میں ۔۔اور زیادہ تر میں نے یہی دیکھا ہے کہ تم جیسی بھولی لڑکیوں کو ایسے مرد بھاگا کر لے جاتے ہیں اور پھر اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر چھوڑ دیتے ہیں۔۔" نائیلہ کا سر شرم س جھکا ہوا تھا۔۔"دیکھو بیٹی! ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔۔رات کی تاریکی ابھی باقی ہے چلو میں تمھارے گھر تمھیں چھوڑ آؤں۔میرے ساتھ اپنے گھر چلوگی؟" نائیلہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ مراد ان کو تھانے لے جاکر زرا ان کی خاطر مدارت کرو۔۔میں بچی کو اس کے گھر چھوڑ آؤں۔۔اور پھر وہ اسے دوسری گاڑی میں بٹھا کر اسے گھر چھوڑ آیا۔۔گھر کا دروازہ جسے وہ کھول کر آئی تھی ویسے ہی کھلا تھا۔۔وہ گھر میں داخل ہوئی۔۔کنڈی لگائی کنڈی لگا کر وہ جیسے ہی مڑی سامنے اس کی ماں کھڑی تھی۔۔ماں کو دیکھ کر اس کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔اس سے پہلے وہ کچھ بولتی اس کی ماں بولی۔۔"تمھارے پاس بولنے کے لئے ابھی بھی کچھ باقی ہے؟ ۔۔جاؤ اپنے کمرے میں، اس سے پہلے کہ کوئی اور جاگ جائے۔۔" وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
*******************************
نائیلہ کی شادی فوراً کردی گئی۔۔ اکرم اسے ناپسند ضرور تھا۔۔پر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے شادی کرنی پڑی۔۔جبکہ رمیز کی یاد ابھی بھی اس کے دل میں تھی۔۔۔
شادی کو دوسال ہوگئے تھے ۔۔نائیلہ کی زندگی ایک ڈگر پر چل رہی تھی کہ ایک دن اس کے پاس رمیز کا فون آیا۔۔"دیکھو رمیز! میری شادی ہوچکی ہے اور اس وقت سب گھر والے ہیں میں تم سے اس وقت بات نہیں کرسکتی۔" ٹھیک ہے میں تمھیں رات میں فون کرونگا" یہ کہہ کر رمیز نے فون بند کردیا۔۔
آدھی رات کے وقت دوبارہ رمیز کا فون آیا۔۔وہ کہہ رہا تھا۔۔ " دیکھو نائیلہ تمھارے بعغیر میں نے یہ دن بہت اذیت میں گزارے ہیں۔۔ لیکن ان سالوں میں میں نے محنت کرکے اپنا ایک مقام بنا لیا ہے مجھے معلوم ہے کہ تم اس کے ساتھ خوش نہیں ہو تم میرا ساتھ دو تو میں تمھیں اس سے نجات دلا سکتا ہوں۔" وہ بولی۔ " دیکھو رمیز ! یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے اکرم پسند نہیں تھا۔۔ پر اب وہ میرا شوہر ہے۔ اور ایک مشرقی بیوی اپنے شوہر کو کبھی دھوکا نہیں دے سکتی۔اب وہ میرا سر کا تاج ہے اور تاج کو سر پر سجایا جاتا ہے پیروں میں نہیں روندا جاتا۔۔ اور دیکھو اب آئیندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا۔ اب میں صرف نائیلہ نہیں، مسز اکرم ہوں۔۔ اپنے شوہر کی وفادار۔۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کرکے اپنے کمرے میں آئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر ان تمام باتوں سے بے خبر سو رہا ہے ۔۔پر اسے کیا معلوم تھا۔۔کہ اکرم سب سن چکا ہے۔۔ جبکہ اکرم کو فخر محسوس ہورہا تھا کہ اس کو ایک وفا دار بیوی کا ساتھ نصیب ہوا ہے۔۔۔۔
**********************
(ختم شد)

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment