🖋 اترے ہوے چہرو تمہیں آزادی مبارک
اجڑے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
سہمی ہوئی گلیو کوئی میلہ کوئی نعرہ
جکڑے ہوئے شہرو تمہیں آزادی مبارک
زنجیر کی چھن چھن پہ کوئی رقص و تماشا
نعروں کے غلامو تمہیں آزادی مبارک
اب خوش ہو کہ ہر دل میں ہیں نفرت کے الاو
اے دین فروشو تمہیں آزادی مبارک
بہتی ہوئی آنکھو ذرا اظہار مسرت
رستے ہوئے زخمو تمہیں آزادی مبارک
اکھڑی ہوئی نیندو مری چھاتی سے لگو آج
جھلسے ہوئے خوابو تمہیں آزادی مبارک
ٹوٹے ہوئے خوابوں کو کھلونے ہی سمجھ لو
روتے ہوئے بچو تمہیں آزادی مبارک
پھیلے ہوئے ہاتھو اسی منزل کی طلب تھی ؟
سمٹی ہوٸی بانہو تمہیں آزادی مبارک
ہر ظلم پہ خاموشی کی تسبیح میں لگ جاو
چلتی ہوئی لاشو تمہیں آزادی مبارک
ہر رات کے ڈھلنے پہ نئی رات کی دستک
صبحوں کے سرابو تمہیں آزادی مبارک
مسلک کے زبانوں کے علاقوں کے اسیرو
بکھرے ہوئے لوگو تمہیں آزادی مبارک
اے کاش لپٹ کر انہیں ہم بھی کبھی کہتے
کشمیر کے لوگو تمہیں آزادی مبارک
احمد فرہاد
0 comments:
Post a Comment