ایک تحریر ضرور پڑھیں

وہ کہ جن کی شادی ابھی نہیں ہوئی ۔ ۔ عمر سولہ سال سے پچیس سال کے آس پاس ہے ۔ ۔ بنیادی فزکس جانتے ہیں ۔ ۔  شہباز بِن سرور کی لکھی گئی یہ چُنی مُنی کہانی ضرور پڑھیں ۔ ۔ اِس کہانی میں سبق یہ ہے کہ اِرادہ نکاح کا ہو تو بات متوقع منکوحہ سے نہیں والدین سے کرتے ہیں اور آخری دِن نہیں شروع کے دِنوں میں کر لینی چاہیے !! :)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آو آگے بیٹھا کرو نا یار۔۔۔!!دیکھ نہیں رہے کہ آگے کرسیاں خالی پڑی ہیں۔۔ جب دیکھو پیچھے دبکے رہتے ہو
یہ میرے رومیٹ کی آواز تھی۔۔۔۔۔۔
یار تمھیں تو پتہ ہے نا۔۔!میں پیچھے کیوں بیٹھتا ہوں
یہ پچھلی قطار میں وہ تیسری کرسی دیکھ رہے ہو نا۔۔۔!
بس یہاں سے ہی اس کو میں صحیح طور پر دیکھ پاتا ہوں
کوئ پنتالیس ڈگری کا زاویہ بنتا ہے۔۔۔ اس کی انگلیاں کبھی کبھی اپنے سامنے پڑے نوٹس پر نہ جانے کیا کچھ لکھتی رہتی ہیں۔۔۔۔آخر خالی انگلیوں سے اسے کچھ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ اور کھڑکی سے سامنے خلا میں دیکھتے ہوئے نہ جانے کیا سوچتی رہتی ہے
وہ بھی سائکو ہے اور تم اس سے بڑے سائکو!! میرے رومیٹ نے تقریبا آنکھیں نکالتے ہوئے کہا
میں تیسری کرسی پر بیٹھا تھا سر ریلیٹیویٹی کا کوئ ٹاپک پڑھا رہے تھے۔۔۔سر کہہ رہے تھے فریم آف ریفرینس کے تبدیل ہونے سے گزر تا وقت کسی ایک فریم آف ریفرنس کے لیے کم ہو سکتا ہے اور دوسرے فریم آف ریفرنس کے لیے وہی وقت زیادہ ہو سکتا ہے۔۔۔میں نے رجسٹر پر غیر ارادی طور پر پر لکھ دیا "سچ ہی تو کہہ رہے ہیں سر"
مجھے یاد پڑتا ہے مجھے فزکس کا یہ ٹاپک کبھی یاد نہیں کرنا پڑا تھا۔۔۔۔
وہ جب کیمپس نہ آتی سارے فریم آف ریفرینس خود بخود ٹوٹتے چلے جاتے۔۔۔۔۔ایک دن جب وہ لائبریری میں ھماری کامن شیلف میں ناول ڈھونڈھ رہی تھی مجھے اسی کے توسط سے ناول اچھے لگتے۔۔۔۔میں نے کن انکھیوں سے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھا تھا جو مسلسل گھوم رہی تھیں
ساتھ میں کئ کتابیں گریں
لاء آف گریویٹی اور لاء آف اٹریکشن بیک وقت اپنا کام دکھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کسی فلمی سین کی طرح ھم دونوں کتابوں کو سمیٹتے وہ جا چکی تھی۔۔۔۔۔وہ اپنے ارد گرد چیزوں سے ماورا ہو کر اپنے ہی مدار میں رہنا جانتی تھی۔۔۔۔۔۔
میں نے بارہا اس کے قریب جانا چاہا تھا مگر وہ اپنے گرد ایک حصار رکھتی تھی۔۔۔۔ایک نایاب خوشبو کا حصار۔۔۔۔۔اسی خوشبو نے مجھے ہمیشہ احساس کمتری کا شکار بنائے رکھا۔۔۔۔۔مجھے واپس پلٹنا پڑتا تھا جب وہ اپنے آنے والے کی طرف ذرا بھی التفات کرتی۔۔۔۔۔
آج آخری دن تھا۔۔۔۔پیپر دے کر سب باھر آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ہمت کر کے اس کے قریب جا کر پوچھ لیا پیپر کیسے ہوئے۔۔۔۔۔۔؟
"اچھے"
مختصر جواب ملا
"صحیح"
میری زبان سے یہ الفاظ نکلے
جنھیں بس میں ہی سن پایا۔۔۔۔
"اچھا میں چلتا ہوں"
"آپ کے پیپر کیسے ہوئے؟"
یہ اس کی زبان سے نکلنے والا آٹھ سمسٹرز کا سب سے بڑا جملہ تھا
وہ اب میری طرف متوجہ تھی۔۔۔
شاید اسے بھی علم تھا کہ اس کا تعاقب کرنے والی نگاہیں سامنے ہیں اور آئندہ یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔۔۔۔۔
وہ میرے سامنے کھڑی تھی مگر دور کہیں خلا میں دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
اس نے ایک گھونٹ بھی پیا،خالی گھونٹ!!
"نیچے سے ٹاپ کروں گا ہمیشہ کی طرح"
میں اس جواب کے ساتھ مسکرانا بھی چاہتا تھا۔۔۔۔۔
"آپ کو پتہ ہے آپ کو ایکٹنگ نہیں آتی"
میں چپ رہا۔۔۔
اس کی انگلیاں ہمیشہ کی طرح حرکت میں تھیں
"یہ انگلیوں سے خلا میں کیا لکھتی رہتی ہو ؟"
میں نے ہمت جمع کر کے پوچھ لیا
"نام"

"اچھا میں چلتی ہوں"
فریم آف ریفرینس تبدیل ہو رہا تھا

وہ جانے لگی اور پھر پلٹی
کہا

"آج سب کلاس ایک دوسرے سے معافیاں مانگ رہی ہے،آپ مجھ سے معافی مانگنے مت آنا"

"کیوں؟"
میں نے تقریبا چیخ کر کہا

"کیونکہ تم یہ سمجھتے رہے کہ زاویہ صرف پنتالیس ڈگری کا ہوتا ہے "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment