پرانی بات ھے ۔ ابھی موبائل فون کا رواج نہیں ایا تھا ۔ یونیورسٹی کے ھاسٹل میں اس زمانے کی پی ٹی سی ایل کے دو فون تھے ۔ جب موقع ملتا ایسے ھی ادھر اُدھر کا نمبر ملاتے کہ شاید کسی مہوش سے بات ھو جائے ۔ ھمارے دو تین دوستوں کی اسی طرح دوستی ھو چکی تھی اور وہ اس بات پہ بہت نازاں تھے۔
کرنا خدا کا کیا ھوا کہ ایک دن حسبِ معمول کوششوں میں لگے ھوئے تھے کہ فون کی دوسری جانب ایک نفیس سی کھنکتی ھوئی زنانہ آواز ابھری ۔ پہلے تو ھمارے اپنے اوسان خطا ھو گئے لیکن اپنے آپ سے کہا ' برخوردار ایسا موقعہ پتہ نہیں پھر ملے نہ ملے ھمت نہیں ہارنی چاہیے ' چنانچہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ھوئے اور شوٹ و شوٹ چلتی سانسوں کو کنٹرول کرتے ھوے السلام و علیکم کہا اور بہانہ بناتے ھوے کہا کہ امجد جیدی گھر پر ھے ۔ ساتھ ھی ساتھ دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نام کا کوئی شخص اس گھر میں نہ ھو ۔ دعا قبول ھوئی اور جواب ایا یہاں پر امجد جیدی نہیں رھتے ۔ اس پر ھم نے کہا شاید رانگ نمبر مل گیا ھے اور بات کو لمبا کرتے ھوئے کہا آپ کو خوامخواہ زحمت دی جس کے لئے معذرت خواہ ھیں ۔ بات کو مزید جاری رکھتے ھوئے نہایت شستہ انداز میں وضاحت کی کہ وہ ھمارہ کلاس فیلو ھے اور آج ھم نے مل کے اسائنمنٹ تیار کرنی تھی جس کیلیے اس نے یہاں ھاسٹل آنا تھا۔
دوسری طرف سے رس گھولتی آواز نے کہا کوئی بات نہیں ۔ اس پہ جلدی سے کہ مبادہ فون بند نہ کر دیا جائے ھم نے ھمت کر کے کہا کہ معلوم ھوتا ھے آپ بھی ھماری طرح سٹوڈنٹ ھیں ۔ اس پہ ھماری خوشی کی انتہا نہ رھی جب فون بند کرنے کی بجائے جواب آیا ھاں میں کالج میں پڑھتی ھوں۔ اب باقاعدہ گفتگو شروع ھو گئی ۔ ایک دوسرے کے سبجیکٹ پوچھے گئے ۔ پڑھائی کے معاملے میں پیش آنے والی مشکلات وغیرہ کا ذکر ھوا۔ چونکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اس لیئے مشکلات کے حل کیلیے ھم نے اپنی ممکنہ خدمات پیش کر دیں ۔ اس طرح یہ رانگ نمبر واقفیت میں بدل گیا اور پھر وقتا" فوقتا" فون آنے جانے لگ گئے ۔
فون پہ بات چیت کا یہ سلسلہ ھمارے دل میں گھر کرتا گیا اور آھستہ آھستہ اُنسیت میں تبدیل ھوتا گیا ۔ ملاقات کی تڑپ جاگ اٹھی۔ اس پر اپنے ایک جہان دیدہ کلاس فیلو سے مشورہ کیا تو پہلے پہل اس نے مذاق اڑایا کہ چیونٹی کے بھی پر نکل آئے ھیں۔ بعد میں مشورہ دیا کہ اب بلا جھجک ملاقات کی بات کر دی جائے اور اظہارِ محبت کیا جائے ۔ گذارش کی دیہاتی بندے ھیں گھبراہٹ ھوتی ھے ۔ کہا خط لکھ کے کہہ دو ۔
چنانچہ ھم نے ڈرتے ڈرتے ایک خط لکھا
" مجھے نہیں معلوم کہ فون پہ ھونے والی باتوں کا سلسلہ کب ایک کسک میں تبدیل ھوا اور دل میں آپ سے ملنے کی تمنا جاگ اٹھی ۔ کیا آپ اس صورتِ حال میں میری مدد کر سکیں گی "
خاطر خواہ اور مثبت جواب آیا اور کہا گیا کہ پہلے ھم ان کی گلی کا چکر لگائیں۔ وہ ھمیں دیکھنا چاہ رھی تھیں۔ اس پہ ھم کھل اٹھے ۔ مگر مسئلہ یہ ھوا کہ غربت کے مارے ھمارے پاس نہ تو ڈھنگ کے اور نہ ھی فیشنِ وقت کے کپڑے تھے اور نہ کوئی سواری ۔ اور ھم پہلا امپریشن خراب نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ ھم نے کہہ رکھا تھا کہ ھم ایک وجیہ نوجوان ھیں جس کی شکل وحید مراد سے ملتی ھے اور اس کی طرح کے فیشن کرتے ھیں ۔
دوستوں سے منت کر کے ایک اچھی رنگین دھاریوں والی امپورٹڈ قمیض اور فیشنی جینز کی پینٹ لی۔ سواری کے سلسلے میں ایک دوست نے مہربانی کی اور اپنی موٹر سائکل دیدی لیکن چونکہ ھمیں چلانی نہیں آتی تھی اسی دوست سے عرض کیا کے وہ ھمیں وھاں لے جائے ۔ کچھ
رد و کد کے بعد ھماری حالت پہ ترس کھا کے راضی ھوگیا
پری وِش سے وقت اور دن طئے کیا۔ نشانی کے طور پر موٹر سائکل کا نمبر بھی بتا دیا تاکہ پہچاننے میں کوئی دقّت نہ ھو ۔
مقررہ دن کو مانگے کی رنگین قمیض اور بلیو جینز پہنی ۔ ایک دوست کے فیشنی گاگل آنکھوں پہ چڑھائے اور مانگے کی موٹر سائکل پہ ڈرائیور ( موٹر سائکل کے مالک ) کے پیچھے بیٹھ کر اس احتیاط کے ساتھ کوچہء جاناں کو چل دئے کہ اس کے کپڑے اور گیٹ اپ بالکل سادہ اور ھم سے کمتر ھو کیونکہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔
حسینہ بالکونی میں کھڑی ھماری راہ دیکھ رھی تھی ۔ آسمانی رنگ کے سوٹ میں کسی اپسراء سے زیادہ خوبصورت لگ رھی تھی ۔ موٹر سائکل کو پہچان گئی چوری چھپے ھاتھ ھلایا ۔ ھم نے بھی جوابی ھاتھ ھلائے اور جب تک وہ نظر آتی رھی ھم ادھر اُدھر دیکھ کر گاھے گاھے ھاتھ ھلاتے گئے ۔
اپنی اس عظیم کامیابی پر بہت خوش ھاسٹل پہنچے تو رھا نہ گیا اور اسے فون کیا اور پوچھا کہ ھم اس کو کیسے لگے۔ اُس کی آواز میں بھی خوشی جھلک رھی تھی۔ چہک کر بولی
" آپ بہت اچھے اور پیارے لگ رھے تھے لیکن یہ باندر کون تھا جو آپ کے پیچھے بیٹھا تھا....
باندررررر 😂😂😂😂
0 comments:
Post a Comment