*"بیٹیوں سے نہیں ، بیٹیوں کے نصیب سے ڈر لگتا ہے*"

یہ ہمارے ہاں ایک عام سا بولا جانے والا جملہ ہے اور اسی پر ہمارا پختہ یقین بھی ہے،

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سب کا نصیب لکھا جاچکا ہے، لیکن اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے  کہ نصیب لکھنے والا کون ہے وہ جو اپنے بندے بندیوں سے 70 ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے، اگر ایک ماں کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی بیٹی کے نصیب لکھے تو وہ ہر طرح کی خوشیاں ہی خوشیاں لکھے گی، تو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ 70 ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا اللہ نصیب لکھے اور ہم کہیں کہ بیٹی کے نصیب سے ڈر لگتا ہے یہ تو اللہ کے لکھے نصیب سے مایوسی کا اظہار ہو جاتا ہے، جب وہی اللہ بیٹوں کے بھی نصیب لکھتا ہے ہم بیٹوں کے بارے یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ بیٹوں کے نصیب سے ڈر لگتا ہے، اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ بیٹے کے نصیب اچھے لکھے اور بیٹی کے نصیب اچھے نہ لکھے۔ یہ ہمارے عمل کا قصور کے نصیب کا نہیں۔

ایک مثال ہے " ٹرین آرہی ہو اور کوئی شخص ٹرین کے سامنے کھڑا ہو جائے کہ اگر نصیب میں موت لکھی ہوئی تو مر جاوں گا ورنہ مجھے کچھ نہیں ہوگا" کیا اسے کوئی عقلمندی کہے گا؟ یا کوئی ایسا کرے گا، نہیں ہرگز نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے اور ٹرین سے ٹکرا کر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اسلامی لہذا سے اس شخص نے خودکشی کی اور خودکشی حرام ہے۔ اب بتائے یہ خودکشی کیوں ہے؟ یا ٹرین سے ٹکرا کر مرنے والے کا کیا قصور ہے؟ اگر اس کے نصیب میں ہی ایسا لکھا تھا؟ ہے نہ سوچنے کی بات۔ یہاں نصیب کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، خودکشی کرنے والے کا عمل غلط تھا۔

اب اصل نقطے کی طرف آتے ہیں اس مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں سب کچھ نصیب پر نہیں ڈالا جاسکتا، نصیب عمل سے جڑا ہوتا ہے، اگر ایک انسان خودکشی کر رہا ہے تو یہ اس کا نصیب نہیں عمل ہے۔

ہم نے سکھ لیا ہے کہ اپنا عمل ٹھیک نہیں کرنا اور سارا الزام نصیب پر ڈال دینا ہے، اصل بات یہ ہے کہ ہمارا علم  غلط ہو گیا ہے جب علم غلط ہو جاتا ہے تو عمل خودبخود غلط ہو جاتا ہے، یہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے لیکن ہم اپنا علم اور عمل درست کرنے کی بجائے نصیب کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا علم قرآن و حدیث ہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ ہم علم ٹی وی، کیبل فلم, ڈراموں، ناول، اور انٹرنیٹ سے حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے علم و عمل سے معاشرے میں بے راہ روی ہی پھیلتی ہے فتنے فساد ہوتے ہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

جن والدین نے بچوں کی تربیت کرنی ہے جب انہوں نے اپنے دین کے بارے علم ہی حاصل نہیں کیا تو ان کا عمل کیسے درست ہوگا جب عمل درست نہیں ہوگا تو وہ اپنے بچوں کی درست تربیت کیسے کر سکتے ہیں؟ اچھی اور مہذب زندگی کیسے گزارنی ہے اس بارے اور میاں بیوی کے تعلق کے بارے قرآن میں سینکڑوں آیات ہیں پوری پوری سورتیں ہیں، لیکن ایسے والدین آٹے میں نمک کے برابر ہیں جنہوں نے ان آیات کا ترجمہ پڑھا ہے یا ان سے علم حاصل کیا ہے، قرآن سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ہے صرف عربی پڑھ کر ثواب حاصل کرنے کے لئے نہیں۔ دنیاوی تعلم سے انسان کو ڈگری ملتی ہے، مہذب طریقے سے زندگی گزانی نہیں آتی۔ صحابہ اکرامؓ کے دور کو دکھیئے ان کے پاس علم و عمل تھا تو کیسے عالی شان نصیب تھے مرد و خواتین کے۔

اب اسی عمل کو لے کر بات کرتے ہیں بیٹیوں کی، لوگوں کو اپنی بیٹی کے نصیب کی تو بہت فکر ہوتی ہے لیکن جب کسی دوسرے کی بیٹی بہو بن کر آپ کے  گھر آتی ہے تو آپ کا عمل کیا ہوتا ہے اس کو آپ خوشی، چین و سکون نصیب نہیں ہونے دیتے، کبھی جہیز نہ لانے اور کام کے طعنے، جہیز میں کوئی چہیز کم رہ جائے اس کے طعنے، شوہر بیوی سے اچھا سلوک کر رہا ہے تو زن مریدی کے طعنے۔ جبکہ اپنی بیٹی کے لئے خواہش ہوتی ہے کہ شہزادیوں جیسی زندگی گزارے اسے ہر خوشی ملے لیکن دوسرے کی بیٹی کی خوشی برداشت نہیں، کسی نہ کسی طریقے سے اس کو اذیت پہنچاتے رہتے ہیں یہ منافت ہماری اپنی ہے یا کسی کی بیٹی کے نصیب کا قصور ہے؟ اگر ایک مرد کسی کی بیٹی (اپنی بیوی) کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہا ہے یا اچھا رویہ نہیں رکھتا تو یہ بیٹی کے نصیب کا قصور ہے یا والدین کی غلط تربیت کا؟ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں یہ بات صرف ہم بولتے ہیں اس پر عمل کوئی بھی نہیں کرتا کوئی کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھتا. سچ تو یہ ہے جب ہر کوئی دوسرے کی بیٹی کی خوشی کا خیال کرے گا اپنے عمل سے دوسرے کی بیٹی کو تکلیف نہیں دے گا تو یقین جانئے آپ کی بیٹی کے نصیب خود ہی اچھے ہو جائیں گے تھوڑا نہیں پورا سوچیئے  گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞🌹💞
               ایسی مزید خوبصورت اچھی پوسٹس پڑھنے کے لیے ہمارا گروپ جوائن  کریں۔.............. *(اسلام کی بیٹیاں)** *9335431854* 📱*آپکو اچھی اچھی پوسٹس ملتی رہیں گی۔ جس میں خوبصورت اقوال، دلچسپ سبق آموز کہانیاں، اور اسلامک قصے شامل ہیں
خوش رہیں آ باد رہیں آپ ۔۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔
               ─━━━═•✵⊰✿⊱✵•═━━─

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment