ڈارون کا باندر۔


۔

جب انسانوں کو انسانیت کی معراج پر کھڑا دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ اگر ڈارون زندہ ہوتا تو انسان جیسی اشرف المخلوقات کو بندر کی نسل سے ملانے پر اُس سے سوال ضرور کرتا مگر جب میں انسانوں کے اندر چُھپے ہوئے درندوں
کو باہر آتا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ڈارون نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ انسان
بندر سے بنا ہے۔
یہاں پھر میں اُس پر اعتراض کرتا ہوں کہ صرف بندر ہی کیوں؟ سب کچھ چٹ کر جانیوالے ڈائنو سار، اپنے بچوں کو کھا جانےوالے اژدھا اور معصوم جانوروں پر حملے کرنےوالے بھیڑیے میں اُسے کیوں کوئی انسانی مماثلت نظر نہیں آئی؟۔ ممکن ہے کہ اُس نے کسی انسان کو ٹپوسیاں لگاتے دیکھا ہو اور اُس نے فرض کر لیا کہ انسان بندر ہی کی ایڈوانس قِسم ہے، یا پھر اپنے ہاتھوں سے کسی کو اپنا ہی گھر جلاتے دیکھ کر بھی وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہو۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جب کسی ظالم ماں نے خود اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے مارا ہو تو اُسے انسان پر بندر ہونے کا گُماں گزرا ہو۔ یا پھر اُس نے کسی دم توڑتے انسان پر ، اُس کے اردگرد کھڑے قہقے اور پتھر مارتے انسانوں کو اپنی چشمِ بینا سے دیکھ کر اپنے نظریئے کی کاملیت پر یقین کیا ہو۔۔۔ یہاں تک تو میں کسی حد تک، اُس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوں مگر حضرت انسان کی کافی ساری عادات بندر سے مختلف ہیں۔ آپ بندر کو جتنا مرضی باندر کہہ لیں وہ کبھی کسی کے بہکاوئے میں آ کر اپنے ہم نسل کو خود کُش حملہ میں نہیں مارے گا، وہ کبھی اپنے ہی بچوں کی خوراک اور ادویات میں ملاوٹ نہیں کرے گا۔۔۔ وہ کبھی کسی بھی مری ہوئی باندری سے زنا نہیں کرے گا، وہ کبھی کسی مرے ہوئے بندر کی لاش کے اعضاء چند ٹکوں کے لیئے نہیں بیچے گا۔مرے ہوئے یا مارے ہوئے جانور کی لاش کی چیر پھاڑ کرنا، البتہء کچھ درندہ صفت جانوروں کا محبوب مشغلہ ہے۔ ایسے درندہ صفت جانوروں کی کچھ صفات ،کچھ انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر درندہ جتنا مرضی درندہ ہو، وہ اتنا درندہ کبھی بھی نہیں ہو گا کہ کسی دوسرے جانور سے محض حسد اور رقابت کی بِنا پر توہینِ مقدسہ کا الزام لگا کر اُسے قتل کر دے اور پھر اُسی کی لاش کی چیر پھاڑ کر کے اُس پر جشن بھی منائے۔ ہر قسم کا درندہ صرف اپنی بھوک مٹانے کی خاطر ہی شکار کرتا ہے۔ شیر جیسا خونخوار و بہادر جانور بھی جب اپنی بھوک مِٹا لیتا ہے تو چشمِ انسانی نے دیکھا کہ وہ ہرن کے معصوم بچے کو بچانے کے لیئے اپنی ہی نسل سے ٹکرا گیا۔ مگر یہ کیا کہ ایک انسان اپنی جبلی خواہشات کی تسکین و تکمیل کے لیئے ہمہ وقت دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتا رہتا ہے۔۔۔ نر جانور کبھی کسی کمسن مادہ کی عصمت دری نہیں کرتے، کبھی کسی معصوم و بے گناہ کے ناحق قتل کو جسٹیفائی کرنے کے لیئے تاویلیں تلاش نہیں کرتے۔
آپ نے جانوروں میں کسی کو مشعل خان بنتے نہیں دیکھا ہوگا، اُن میں کبھی کسی ملالہ نے اپنے ہم نسل جانوروں سے ڈر کر کبھی مُلک بدری اختیار نہیں کی ہوگی، کسی آلان کُردی کی لاش ساحل سمندر پر بھی نہیں ملتی جانوروں کے ہاں۔ اور تو اور ، اگر چند سو جانور کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو کوئی کرائے کا جانور، اللہ کا نام لیکر کبھی پھٹتا بھی نہیں دیکھا گیا۔
جانور جتنے مرضی جانور بن جائیں، کبھی اتنے حیوان نہیں بنیں گے جتنا کبھی کبھی حضرت انسان کو حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ وہ حیوان ہو کر دوسرے مُردہ حیوان کے قلم کیئے گئے سر سے فٹ بال نہیں کھیلتے اور نا ہی چھ ماہ کے کسی معصوم کو نیزوں پر پروتے ہیں۔
ویسے اگر آج ڈارون زندہ ہوتا تو سائنسی توجہیات پیش کرنے کی بجائے، وہ اسی معاشرے سے ایسی ہزاروں مثالیں پیش کرتا کہ ہمیں اپنے انسان ہونےپر دکھ ہوتا ، اور جانوروں کو انسان نا بننے پر خوشی ہوتی۔
یہ ہماری اخلاقی پستی کی دلیل ہی تو ہے کہ جب بھی وفا کا ذکر ہو تو ہم کُتے کی مثال دیتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جانور انسانوں سے افضل ہیں، مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ کچھ انسان، جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment