حضرت نظام الدین اولیاء ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک ویران علاقے "غیاث پور" میں تھے۔ یہ حضرت نظام الدین اولیاء اور ان کے ساتھیوں کے افلاس کا وہ زمانہ تھا کہ تین تین دن روٹی کا ایک لقمہ بھی میسر نہیں آتا تھا۔ اگر کبھی کچھ غیب سے حاصل ہو جاتا تو آپ سب سے پہلے اپنے خدمت گاروں کو کھلاتے۔
غیاث پور میں ایک بوڑھی عورت بھی حضرت نظام الدین اولیاء کی ھمسایہ تھی۔ اور آپ سے بے حد عقیدت رکھتی تھی۔ اس بوڑھی عورت کا یہ کام تھا کہ صبح سے شام تک رسی بٹتی اور پھر دوسرے دن قریب کی آبادی میں جا کر اس رسی کو فروخت کر دیتی۔ پھر چار پیسے جو حاصل ہوتے ان سے جو کا آٹا اور تھوڑی سی ترکاری خرید لاتی۔ اس کے بعد چند روٹیاں پکا کر حضرت محبوب الہی کی خدمت میں پیش کر دیتی۔ پہلی بار جب ان ضعیف خاتون نے اس طرح عقیدت کا مظاہرہ کیا تو حضرت نظام الدین اولیاء نے یہ کہہ کر وہ روٹیاں قبول کرنے سے انکار کر دیا: "اس غذا سے تو خود تمہارا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا۔ پھر ہم لوگ تمہارے ناتواں کاندھوں پر اپنے رزق کا بوجھ کیوں ڈالیں؟ ہم اللہ کی عبادت کر رہے ہیں تو پھر اللہ ہی ہمارا رازق ہے اور دوسری ضروریات کا کفیل بھی۔"
حضرت محبوب الہی کا جواب سن کر بوڑھی عورت گریہ زاری کرنے لگی: "مجھے اپنی خدمت سے محروم نہ فرمایے۔ میرے نامہ اعمال میں اس کے سوا کچھ نہیں۔" ضعیف خاتون کے لہجے میں اس قدر خلوص اور گداز تھا کہ حضرت نظام الدین اولیاء انکار نہ کر سکے اور جو کی پکی ہوئ روٹیاں قبول فرما لیں۔ اب اتفاق تھا یا قدرت کی مصلحت کہ وہ خاتون کئ دن سے رسیاں تیار کر رہی تھی چار روز تک کوئ خریدار نہیں ملا۔ وہ خاتون بھی دوسرے درویشوں کی طرح اتنے دن سے فاقے کے ساتھ تھیں، مگر انہیں خود سے ذیادہ ان درویشوں کی فکر تھی۔ بلآخر پانچویں دن کسی شخص نے ان خاتون سے ایک رسی خرید لی۔ خاتون بہت خوش تھی کہ آج فاقہ کشی کا تسلسل ٹوٹ جاۓ گا،رسی کی قیمت سے سیر بھر جو کا آٹا آیا اور جب عصر کا وقت آیا تو وہی سیر بھر آٹا حضرت محبوب الہی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء کچھ دیر تک سوچتے رہے، پھر مولانا کمال الدین یعقوب کو حکم دیتے ہوۓ فرمایا: "یہ نظر خلوص ہے اسے قبول کر لو اور آٹے کو دیگ میں ڈال کر پکنے کے لیے رکھ دو۔" حضرت شیخ کمال الدین نے پیرو مرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ جو کے آٹے کو دیگ میں ڈال دیا اور پھر زیادہ مقدار میں پانی بھر دیا۔اس کے بعد آگ دہکا دی گئ۔ ایسا کرنے سے حضرت محبوب الہی کا مقصد یہ تھا کہ اگر آٹے کے علاوہ غیب سے کچھ حاصل ہو تو اسے بھی دیگ میں ڈال کر پکا لیا جاۓ۔ اس طرح غذا کی مقدار بڑھ جاتی۔
آگ کے شعلے بھڑکتے رہے اور پانی ابلتا رہا۔ اس اثناء میں ایک گدڑی پوش فقیر کہیں سے گھومتا ہوا آیا اور نعرہ زنی کرنے لگا: "اگر کسی کے پاس کچھ ہے تو وہ اسے فقیر کے سامنے پیش کرے، آج فقیر بہت بھوکا ہے، جلدی کرو اور اس کی بھوک مٹا دو۔" وہ فقیر مولانا یعقوب کے پاس آۓ جو کہ دیگ کے قریب ہی بیٹھے ہوۓ تھے اور دوبارہ پھر صدا لگائ: "اگر کچھ ہے تو کھانے کو دیدو،دیگ کو بند کیوں کر رکھا ہے؟ اس کا منہ کھول دے۔" وہ فقیر اپنی ظاہری حالت سے کوئ مجزوب معلوم ہوتا تھا۔ مولانا کمال الدین نے گدڑی پوش فقیر کو ایک نظر دیکھا اور اٹھ کر حضرت نظام الدین اولیاء کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ۔حضرت محبوب الہی اس وقت کچھ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے حضرت کمال الدین سے آنے کا سبب دریافت کیا۔ "ایک مرد درویش بہت بھوکا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ کھاۓ پیے بغیر نہیں جاۓ گا۔" مولانا کمال الدین نے عرض کیا۔
"مولانا ! آپ کو اس میں کیا اعتراض ہے؟ اس میں تو اس درویش کا بھی حصہ ہے۔ ہم تو محض منتظم ہیں، ان درویش سے کہہ دو کہ ابھی کھانا پک رہا ھے، جیسے ہی تیار ہو گا سب سے پہلے ان ہی کی خدمت میں پیش کیا جاۓ گا۔" حضرت نظام الدین اولیاء نے ایک عارفانہ تبسم کے ساتھ فرمایا۔
پیرو مرشد کا حکم سن کر مولانا کمال الدین واپس تشریف لے گۓ اور اجنبی درویش کے سامنے حضرت محبوب الہی کے الفاظ دہرا دئیے۔ گدڑی پوش شدید اضطراب میں کہنے لگا: "میرے پاس وقت نہیں، میں انتطار نہیں کر سکتا۔ اپنے شیخ سے کہہ کہ کھانا جس حالت میں بھی ہے، بھیج دیں، بلکہ زیادہ بہتر یہ ھے کہ وہ خود ہی مجھے کھانا کھلائیں۔" یہ کہہ کر وہ گدڑی پوش فقیر وہاں سے ہٹا اور کچھ فاصلے پر جا کر بیٹھ گیا۔ مولانا کمال الدین جھجکتے ہوۓ دوبارہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ھوۓ اور درویش کی خواہش من و عن بیان کر دی۔ وہ لمحات بڑے عجیب تھے، جب مولانا کمال الدین نے حضرت نظام الدین اولیاء کو اپنی نشست سے اٹھتے ھوۓ دیکھا۔
حضرت شیخ بڑے جذب و شوق کے عالم میں فرما رھے تھے: "میزبان کے لیے مہمان کی تواضع فرض ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر فرض یہ ہے کہ مہمان جس طرح بھی خوش ہو، اسے خوش کیا جاۓ۔" حضرت نظام الدین اولیاء کو دیکھ کر وہ درویش کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا۔ "شیخ! اللہ تمہیں خوش رکھے۔ آج بہت بھوک لگی ھے، اس لیے تمہارے دروازے پر چلے آے، اب تم اپنے ہاتھ سے اس فقیر کو کچھ کھلاؤ۔"
حضرت محبوب الہی نے دیگ کے قریب جا کر دیکھا مگر پانی اس طرح ابل رہا تھا کہ اگر اس کا ایک قطرہ بھی انسانی جسم پر گر جاتا تو کھال جھلس کر رہ جاتی۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت شیخ نے فرمایا: "آپ نے مجھ فقیر کو میزبانی کی سعادت بخشی ھے مگر کھانا ابھی گرم ھے تھوڑا سا انتظار کر لیں۔"
"شیخ! اب انتظار نہیں۔ تم اس آگ کی بات کر رہے ہو، میرے شکم میں جو آگ لگی ہوئ ہے، وہ اس سے بھی فزوں تر ہے، بس تم دیگ اٹھا کر میرے سامنے لاؤ۔" درویش بہت زیادہ مضطرب نظر آرہا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء نے پھر کچھ نہیں فرمایا۔ آستینیں چڑھائیں اور ایک موٹے کپڑے سے دیگ کے دونوں کنارے پکڑ لیے۔ اس کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء دیگ اٹھا کر اس درویش کے پاس چلے گۓ۔ مولانا کمال الدین کو گدڑی پوش فقیر کی یہ ادا سخت ناگوار گزری تھی کہ اس نے اپنی جگہ سے حرکت تک نہ کی اور ایسے بیٹھا رہا جیسے خانقاہ کے لوگ اس کے خدمت گار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا کمال الدین نے یہ بھی محسوس کیا کہ حضرت محبوب الہی کی پیشانئ مبارک پر ناگواری کی شکن تک نہ تھی بلکہ آپ دیگ کو اٹھاتے ہوۓ بہت مسرور نظر آرہے تھے۔ جب حضرت نظام الدین اولیاء دیگ لے کر اس درویش کے قریب پہنچے تو وہ بھوک کی شدت سے اس قدر مضطرب ہوا کہ اس نے ابلتے ہوۓ پانی میں بے جھجک اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ حضرت محبوب الہی اسے منع کرتے ہی رہ گۓ۔ مگر درویش بار بار دیگ میں ہاتھ ڈالتا اور پھر جو کے رقیق آٹے کو منہ میں رکھ لیتا۔ گدڑی پوش نے یہ عمل تین بار دہرایا۔ پھر اس نے دیگ کو اٹھا کر زمین پر مار دیا۔ وہ دیگ دراصل مٹی کا ایک بڑا مٹکا تھا جو زمین پر گرتے ہی ٹوٹ گیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء نہایت صبر و سکون سے درویش کی اس اضطراری حرکت کو دیکھتے رہے۔ مگر مولانا کمال الدین خاموش نہ رہ سکے: "مہمان ! تم نے یہ کیا کیا؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس پانی جیسی غذا سے کچھ اور بندگان خدا بھی روزہ کشائ کرتے۔ افسوس! تم نے دوسروں کی بھوک کو نظر انداز کر دیا۔ تم نہیں جانتے کہ یہ درویشان خدا مست کتنے دن کے فاقے سے ہیں۔" مولانا کمال الدین کے لہجے سے تلخی کا رنگ نمایاں تھا۔
"میں اللہ کے حکم سے یہ بات جانتا تھا مگر کیا کرتا کہ میرے اللہ کا یہی حکم تھا، مجھ سے یہی کہا گیا تھا کہ میں اس دیگ کو توڑ دوں۔" درویش بڑی بے نیازی کے عالم میں بول رہا تھا۔ یہ کہہ کر گدڑی پوش حضرت محبوب الہی کے قریب آیا اور نہایت محبت آمیز نظروں سے دیکھتے ھوۓ کہنے لگا: "شیخ نظام الدین ! تمہیں بابا فرید گنج شکر نے نعمت باطنی بخشی اور میں نے تمہاری فاقہ کشی کی دیگ کو توڑ دیا۔ اب تم سلطان ظاہری بھی ہو اور سلطان باطن بھی۔" یہ کہہ کر وہ درویش تیز قدموں سے چلتا ہوا تھوڑی دور جا کر غائب ہو گیا۔ مولانا کمال الدین حیرت سے اپنے پیرومرشد کو دیکھنے لگے۔
حضرت محبوب الہی نے اپنے مرید کی حیرت کو دور کرنے کے کیے فرمایا: "مولانا! اللہ کی قدرت بھی لا محدود ہے اور اس کا کرم بھی۔ انسان عاجز ھے کہ وہ توفیق الہی کے بغیر کچھ سمجھ نہیں سکتا۔ ہم نہیں جانتے کہ کس بھیس میں کون ہے؟ آؤ ! اپنے اللہ کا زکر کریں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔"
اس کے بعد سے آپ کے لنگر خانہ میں ہزاروں من کھانا پکتا اور ہزاورں کی تعداد میں فقراء اور مساکین اس خانقاہ سے کھانا کھاتے۔ وصال سے قبل آپ علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی گھر اور خانقاہ کے اندر جس قدر اثاثہ ہے سارے کا سارا مساکین اور غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ کے حکم پر خواجہ محمد اقبال داروغہ لنگر نے ہزارہا من غلہ بانٹ دیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا۔
- Blogger Comment
- Facebook Comment
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments:
Post a Comment