بِٹھا کر تجھے سامنے جانِ جاناں
طمانچہ لگانے کو جی چاہتا ہے
(منافق عاشق)
رگڑ کر ہری مرچ آنکھوں میں تیری
نگاہیں ملانےکو جی چاہتا ہے
(ظالم)
اکیلے میں اے دردِ سـر مجھ سے ملنا
گلہ ہی دبانے کو جی چاہتا ہے
(قاتل)
میں پیاسا ہوں خوں کا کلیجہ ترا بس
کسی دن چپانے کو جی چاہتا ہے
(ڈائن)
ترے آنسو پوچھوں رُلا کر تجھے میں
تجھے پھر ہنسانے کو جی چاہتا ہے
(کامیڈین)
سمنٹ، بالو، اینٹیں میں تحفے میں بھیجوں
ترا گھر بسانےکو جی چاہتا ہے
(راج مستری)
پتھر ترے سر پہ برسا کے اک دن
ترا سر دبانے کو جی چاہتا ہے
(خونخوار)
کبھی روزِ اتوار آ، کپڑے سارے
تجھی سے دُھلانے کو جی چاہتا ہے
(دھوبی)
ادیبؔ آرزو ہےکسی روز ان کو
اٹھا کر گرانے کو جی چاہتا ہے
(پہلوان)
- Blogger Comment
- Facebook Comment
Subscribe to:
Post Comments
(
Atom
)
0 comments:
Post a Comment