چلو اب ایسا کرتے ھیں ستارے بانٹ لیتے ھیں
ضرورت کے مطابق ھم سہارے بانٹ لیتے ھیں
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ھے
منافع چھوڑ دیتے ھیں خسارے بانٹ لیتے ھیں
اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر
ابھی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ھیں
میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ھیں ان کو
اکٹھے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ھیں
محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ھے فیض
اسی دولت کو ھم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ھیں
0 comments:
Post a Comment