سردی پر نظم 🌹🌹

لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں​
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں

محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں

مئی اور جون کی گرمی میں جو دلبر کو لکھا تھا
اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار سردی میں

دوا دے دے کے کھانسی اور نزلے کی مریضوں کو
معالج خود بچارے پڑ گئے بیمار سردی میں

کئی اہلِ نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے
بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی میں

یہی تو چوریوں اور وارداتوں کا زمانہ ہے
کہ بیٹھے تاپتے ہیں آگ پہریدار سردی میں

لہو کو اس طرح اب گرم رکھتا ہے مرا شاہین
کبھی چائے، کبھی سگرٹ، کبھی نسوار سردی میں​

سرفراز شاہد​

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment