ایک سال پرانی پوسٹ
*✍ مولانا طلحہ صاحب دامت برکاتہم*
جب بھی اس کی تصویر دیکھی دل جذبات سے لبریز ہوا اور آنکھ بھر آئی…
جب بھی اسے اپنی وہیل چیئر اسرائیلی ٹینکوں اور فوجیوں کی طرف بڑھاتے دیکھا
جرأت کا مطب سمجھ آیا اور شجاعت کی حقیقت آشکار ہوئی…
جب بھی اسے زمین پر گھسٹ گھسٹ کر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیوانہ وار اِقدام کرتے دیکھا، خود پر بہت شرم آئی اور شرمندگی ہوئی…
جی ہاں!
ساری اسلامی افواج جس شخص کے معذور وجود سے بھی کمتر تھیں…
چھاؤنیوں میں پردوں میں لپٹے کھڑی یا مشقوں میں چیختی چنگھاڑتی بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک جس کی وہیل چیئر کے سامنے حقیر تر تھیں…
*وہ ’’ابراہیم ابو ثریا‘‘ پیشانی پر گولی کا زخم سجائے جنت مکین ہو گیا…*
بزدلوں کی آنکھوں کی نیند چھن جائے… اب کون امت کے تنِ مردہ میں یوں روح پھونکے گا…
*یہ مجاہد نہ ہوتے تو تاریخ کے کتنے حقائق افسانے کہہ کر جھٹلا دیے جاتے…*
لیکن ان کا وجود اس زمانے میں ماضی کی سچائی کا شعار بن کر اس کی حفاظت کر رہا ہے…
لوگ آسانی سے انکار کر دیتے کہ کہیں ساٹھ کا مقابلہ ساٹھ ہزار سے نہیں ہوا تھا اور ہو بھی نہیں سکتا لیکن ... فلسطین کے محاذ بتائیں گے کہ نہیں ایسا ہوا بلکہ آج تک ہو رہا ہے…
کتنا آسان ہوتا ماؤں کے شہید بچوں پر فخر کرنے اور کمسن بچوں کو دھکے دے کر بہانے سکھا کر گھروں سے جہاد کے لئے نکالنے کے واقعات کو جھٹلانا اگر آج شہید کی ماؤں نے یہ سب کر کے نہ دِکھا دیا ہوتا…
بھلا یہ بھی کوئی مانتا کہ جوان بیٹے کی لاش گھر میں آتے ہی، مائیں دوسرے بیٹے کو اسی آن گھر سے روانہ کر دیا کرتی تھیں، اگر آج امت کے پاس تین تین شہیدوں پر فخر کرنے والی مائیں موجود نہ ہوتیں…
*ہاں اگر عمر عبد الرحمن اور شیخ احمد یاسین نہ ہوتے تو عبد اللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کے علمبردار جہاد ہونے کی بات ’’اساطیر‘‘ کہہ کر کوئی بھی آسانی سے رد کر دیتا…*
اسی طرح ’’ابراہیم ابوثریا‘‘ نے ثابت کر دیا کہ ہاں عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ بالکل تھے، جو لنگڑا کر جنت کی زمین پر چلنے کے شوق میں میدانِ اُحد میں آگے بڑھ بڑھ کر لڑ رہے تھے اور سلامت اَبدان کو شرما رہے تھے…
روشن خیال اور لبرل ازم تو اس روشن تاریخ کو قصے کہانیاں باور کرانے میں کامیابی کے قریب تھے کہ مجاہد کی عزیمت نے اس تاریخ کی سچائی پر نہ صرف مہر تصدیق ثبت کر دی بلکہ یہ سوچ پیدا کر دی کہ اگر پندرھویں صدی کا مسلمان ایسا ہو سکتا ہے تو آقا ﷺ کی زیارت کرنے والوں کے ایمان کا عالم کیا ہو گا؟ کیا تاریخ ان کے ایمان وعزیمت کے بارے میں جو کچھ دِکھا رہی ہے یہ مکمل بھی ہے؟ دل کہتا ہے کہ ان کے بارے میں لکھنے والے حقیقی منظر کشی سے عاجز رہ گئے…
*کسی نے آج شہادت کی خاطر تڑپنے والے فدائی دیکھے ہوں تو اسے یہ سمجھنا کس قدر آسان ہو کہ عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ چند کھجوریں کھانے کے وقفے کو بھی حیات طویلہ سے کس طرح تعبیر فرما رہے تھے…*
اس دور میں جبکہ جہاد کے بارے وارد ہونے کی بعض ضعیف نصوص اور عبارات کو بنیاد بنا کر ہر ایک اپنے لئے قرآن مجید کے اتنے موکد حکمِ جہاد سے خلاصی کا عذر بنا لیتا ہے، ابراہیم ابو ثریا جیسے لوگ ہی یہ حقیقت سمجھاتے ہیں کہ قرآن نے جن لوگوں کو حقیقی معنوں میں معذور قرار دے کر ترک جہاد کے گناہ سے بالکل بری کر دیا تھا وہ بھی کیونکر بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر جہاد میں نکلنے کی اجازت طلب کیا کرتے تھے اور لشکروں میں آگے رہنے کی کوشش کرتے تھے…
سلام زمانہ حاضر کے عظیم مجاہدوں کو… جن کا حال اسلام کے روشن ماضی کی صداقت کی سب سے بیّن دلیل بن گیا ہے…
*’’ابرہیم ابو ثریا‘‘ حالیہ انتفاضہ میں فلسطین کی آواز اور مزاحمت کا سب سے نمایاں عَلَم بن کر سامنے آیا۔ ببر شیر جیسا وجیہ اور بارعب چہرہ، خوبصورت گھنی مکمل شرعی داڑھی، گھنگھریالے بال ، کشادہ پیشانی اور بڑی اور چمکدار آنکھیں۔ گرج دار آواز میں عبرانی زبان میں جب وہ اسرائیلی فوجیوں کے روبرو ان پر گرج رہا ہوتا تو رعب سے ان کی آنکھیں جھک جاتیں۔*
وہ دونوں ٹانگوں سے معذور تھا۔ وہیل چیئر پر ہاتھ میں فلسطین کا جھنڈا لئے نعرے لگا رہا ہوتا یا زمین پر بیٹھ کر اپنی غلیل سے ان پر سنگ زنی کرتا۔ *مظاہروں میں جب صیہونی اَفواج فائرنگ کرتے ہوئے ٹوٹ پڑتیں تو وہ اس وقت بھی آگے ہی کی طرف بڑھتا اور نوجوان اس کی آڑ لے کر اقدام کرتے نظر آتے۔*
حنین کے سالار آقا ﷺ کا گھوڑا جس طرح ہزاروں تیروں کی بوچھاڑ میں بھی آگے کی طرف بڑھ رہا تھا اسی طرح آقا ﷺ کے اس جانثار غلام کی سواری بھی برستی گولیوں میں آگے ہی بڑھتی تھی۔
*وہ پورے فلسطین میں حریت، غیرت ، حمیت اور عزیمت کا استعارہ بن چکا تھا۔ اس پر مقالے لکھے جا رہے تھے اور اس کی مدح میں نشید کہے جا رہے تھے۔*
اس کی آواز فلسطینی نوجوانوں کو مزاحمت کی طرف کھینچ رہی تھی۔ معذوری کے اس عالم میں اس کا یہ مجاہدانہ بانکپن دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ یہ نوجوان اللہ کا شیر 2008 تک جب پورے قد سے دشمنوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہو گا تو کیا عالم ہو گا… حماس کے سرحدی محافظین کے دستے کا یہ رکن 2008 کے غزہ آپریشن کے دوران صیہونی بکتر بند گاڑیوں کے غزہ میں ایک بڑے حملے کو روکتے ہوئے اپنی دونوں ٹانگیں قربان کرا چکا لیکن اس کے جذبہ جہاد میں کوئی کمی آئی، نہ خوئے عزیمت میں کوئی رخنہ پڑا…
وہ جونہی صحتیاب ہوا، وہیل چیئر پر بیٹھ کر *غُلیل بردار مجاہد* بن گیا اور تحریک مزاحمت کے سنگ بازوں کا سالار بن گیا۔ القدس پر صیہونی تسلط کے اس تازہ اقدام کے بعد سے وہ مسلسل خبروں اور سرخیوں کی زینت بنا رہا اور اپنے دستے کو لے کے صیہونی افواج کے لیے درد سر بن گیا۔ *وہ ایسا سالار ثابت ہوا کہ ہزیمت اس کی فطرت میں ہی نہ تھی۔* اور بالآخر کل وہ اپنی عادت کے مطابق اقدام کرتا ہوا سر پر گولی کا زخم سجائے اپنی منزل پا گیا۔ اس کے والد آج بچشم نم کہہ رہے تھے کہ ابراہیم نے آج اپنی منزل پا لی اور راحت سے ہمکنار ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے… مزید وہ کچھ نہ بول سکا۔ اس کے دوست فخر کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ابراہیم پہلی بار شدید زخمی ہوا اور اس کے سر اور پیٹ میں شدید زخم آئے لیکن وہ بچ گیا اور صحتیاب ہوتے ہی پہلے سے زیادہ شدید مجاہد بن گیا۔
پھر اس کی دونوں ٹانگیں قربان ہو گئیں مگر وہ میدان سے نہ ہٹا اور آج تا دم ِشہادت وہ میدان جہاد میں کمانڈر کا منصب نبھاتا رہا۔
سلام اے معذور کماندار
سلام اے عمرو بن الجموح ؓ کے روحانی فرزند
سلام اے اقصیٰ کے دیوانے شہید
*آپ کا روشن کردار کم ہمتوں کو ہمت کی راہ دِکھاتا رہے گا اور آپ کی شجاعت بزدلوں کے دلوں کا زنگ اُتارتی رہے گی۔ آپ کا لشکر اسی طرح صیہونیت سے برسرپیکار رہے گا۔ آپ کی عزیمت والی سواری دشمن کی جانب بڑھتی رہے گی اور آپ کا جہاد ضرور منزل سے ہمکنار ہو گا۔*
٭…٭…٭
سلام ہے ایسے انسان کو
ReplyDelete