*میرا دردِ کمر، کم ہوا دیکھ کر.*
*نرس جب مسکرائی مزہ آگیا.*
*بھر کے ٹیکے مجھے جو لگائے گئے،*
*جام تھے یا دوائی مزہ آگیا.*
*جس کی خاطر مجھے اس نے ٹھکرا دیا،*
*ساتھ اس کے جو دیکھا وہی منچلا.*
*اور پھر دوستو میری اک کال پر،*
*آگئے اس کے بھائی مزہ آ گیا*
*بال ابا کے کم قرض زیادہ ہوا،*
*پھر بھی شادی کرا دی مری شکریہ*
*سونا پڑتا تھا پہلے زمیں پر مجھے،*
*مل گئی چارپائی مزہ آگیا.*
*اپنی ممی کے کہنے میں آتی رہی،*
*میری بیگم سبھی کو ستاتی رہی.*
*اس کی بھابی نے بھی اس کی ممی کے گھر،*
*آگ ایسی لگائی مزہ آگیا*
*بیویاں میری دونوں ہیں ظالم بڑی،*
*آج دونوں کسی بات پر لڑ پڑیں.*
*بال کھینچے گئے، گال نوچے گئے،*
*دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آگیا*
*سیلری اپنی، ابا کی پنشن لئے،*
*سیدھے سسرال جا کر وہ حاضر ہوئے.*
*ایک ہی دن میں سسرال والوں نے بھی.*
*لوٹ لی سب کمائی مزہ آگیا*
*عورتوں کے تقدس پہ تھی گفتگو،*
*آ گئی بزم میں جونہی اک خوبرو.*
*کھُل کے کردار سب آ گئے سامنے،*
*لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا.*
*شعر کہنا تھا مجھ کو سیاست پہ بھی،*
*اس لئے میں نے دن رات ریسرچ کی.*
*کوئی بھی بات جس پر مزہ آ سکے،*
*جب کہیں بھی نہ پائی مزہ آگیا.*
0 comments:
Post a Comment