مسلم قوم میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے ہر طرف مارے کاٹے جارہےہیں، کچھ ہیں جو بامراد ہورہے ہیں، لیکن اکثریت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے!
در ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ایسا دین چاہیے ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺎ ﮨﻮ،
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ،
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ہم دوسروں میں ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﮭﺮﯾﮟ لیکن ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﺳﮯ زیادہ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ رکھیں ۔
ماضی کے کارناموں پر ڈینگیں ہانکتے رہیں، لیکن ان کارناموں کے پہلے مرحلے سے ہی بدک جائیں،
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ ،عمامہ، ﻣﺴﻮﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺳﻨﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ، ﻟﯿﮑﻦ وقت کے طاغیوں ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﻔﺎ و ﻣﺮﻭﮦ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺣﻖ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ !!!
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ کانوں کی لذت والی ﻧﻌﺖ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺟﺰﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ!
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎ رحمۃ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﻮ معلوم ہو، ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎ ﺧﻮﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺩﮦ ﻧﺎﻡ ﻧﺒﯽ ﺍﻟﻤﻼﺣﻢ ﷺ ( ﺟﻨﮕﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﻧﺒﯽ ) جان کر بھی جاننا نہيں چاہتے،
ماضی کے شاندار واقعات سے اپنے اسٹیج سجانا چاہتےہیں، ایک سے بڑھ کر ایک بہادری کی لوریاں سنا کر کریڈٹ بھی لینا چاہتےہیں، لیکن خود کوئی اقدام کرنا نہیں چاہتے،
ہم ایسا دین چاہتےہیں، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺻﺎﻑ ﺻﺤﺎبہء کرام ؓ ﺗﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ علیھم ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﻨﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﺗﮩﯽ ﮨﻮ!
ﺟﮩﺎﮞ ﺑﻼﻝ ﺣﺒﺸﯽ ﷺ ﮐﺎ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﯿﺴﭩﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭے ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮ،
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﻏﻞ ﻏﭙﺎﮌﮦ ﮐﺮﻧﮯ ، ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ، ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﭽﻞ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎزﺕ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ،
ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﻨﮓ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ،
ﺟﮩﺎﮞ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺭﺍﺑﻦ اور ﮨﻮﮈ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺍﺑﻮﺩﺟﺎﻧﮧ ، ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺿﺮﺍﺭ، ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﺷﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮ،
ﺟﮩﺎﮞ ﭼﮭﯿﻨﮏ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ
" ﻭﮨﻦ " (یعنی موت کا خوف جس کی وجہ سے ذلّت کی زندگی پر راضی ہیں ) اس ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺳﮯ واقف بھی نہیں ہونا چاہتے،
ایسے مسلمان بننا چاہتےہیں جو اپنی مسلمانی چھپائیں، ايسے سیکولر بننا چاہتےہیں کہ اسلام کا نام زبان پر نا آئے، ایسے دانشور بننا چاہتےہیں کہ مادی نظریات سے تو خوب خوب استدلال کریں اور ان سے تمغے سجائیں لیکن اسلام اور نظریۂ اسلام سے بدکتے ہیں،
ملحدانہ نظریات کے نعرے لگانا چاہتےہیں لیکن اپنی تہذیب و تمدن سے منہ پھیرتے ہیں،
ان اقوام کے ساتھ رہتےہیں جو اپنی شناخت، تشخصات اور نظریات ڈنکے کی چوٹ پیش کرتےہیں ہم ان کا لیبل اپنے پر لگوانے کی فراق میں رہتےہیں لیکن اپنے تشخصات چھپاتے ہیں،
دوٹوک یہ کہ آج کا مسلمان بشمول عام و خاص ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ چاہتاہے جس کی بنیاد ﯾﮧ ہو ﮐﮧ وہ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺪﯾﺪ ﺩﯾﻦ ہو، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﺎﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮ۔۔
اور ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ، اور ﺟﺐ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎہیے تو ایسی کھلی منافقت کے ساتھ ابوﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖؓ، ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕؓ ، ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽؓ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽؓ و ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ ﺟﯿﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯿﮕﺎ ؟؟؟؟!!
0 comments:
Post a Comment